بہاولپور کے صحرائے چولستان میں ہونے والی 19ویں چولستان جیپ ریلی اختتام پذیر ہوگئی ، پانچ روزہ چولستان جیپ ریلی کی پری پیئرڈ کیٹیگری میں بہاول پور کے زین محمود دو مرحلوں کا مجموعی 462 کلومیٹر فاصلہ 3 گھنٹے 51 منٹ میں مکمل کرکے پہلے، جعفر مگسی دوسرے نمبر پر رہے، نادر مگسی جیپ خراب ہونے کی وجہ سے ریس سے باہر ہوئے، خواتین کیٹیگری میں مہم فیروز فاتح قرار پائیں، دینا پٹیل دوسرے، لالین تیسرے نمبر پر رہیں، اسٹاک کیٹیگری میں بلال چوہدری پہلے، ایم مروت دوسرے نمبر پر رہے۔ 19 ویں چولستان جیپ ریلی کے موقع پر رنگا رنگ میلے کی تقاریب کا انعقاد بھی کیا گیا جس میں گلوکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا ، کلچرل نائٹ میں آتش بازی نے رنگ جمایا، ڈیزرٹ رینجرز کے جوانوں نے اونٹوں سے پریڈ کی۔ بلاشبہ چولستان جیپ ریلی عالمی ایونٹ بن چکا ہے اور اس مرتبہ بھی لاکھوں لوگ اسے دیکھنے کیلئے آئے۔ سالہا سال سے چولستان جیپ ریلی منعقد ہو رہی ہے ، پچھلے ادوار میں محکمہ سیاحت پنجاب سے ادیبوں ، شاعروں اور ٹورسٹ کی شکایات رہی ہیں، اس مرتبہ بہت حد تک ان شکایات کا ازالہ کیا گیا ہے اور بہتری کی کوشش کی گئی ہے اس کا کریڈٹ سیکرٹری سیاحت راجہ جہانگیر انور کو جاتا ہے کہ راجہ صاحب کچھ عرصہ پہلے بہاولپور ڈویژن کے کمشنر رہے ہیں ان کو بہاولپور کی تہذیب و ثقافت کا ادراک ہونے کے ساتھ ساتھ وسیب سے محبت بھی ہے، اسی بناء پر اس مرتبہ کچھ بہتری نظر آئی ہے تاہم مزید بہتری کیلئے اقدامات کی اب بھی ضرورت ہے۔ میں یہ بھی کہوں گا کہ بحیثیت کمشنر بہاولپور ڈویژن راجہ جہانگیر انور نے چولستان کے بہت دورے کئے اور چولستان کے مسائل کے حل کے لیے انہوں نے ہرممکن اقدامات اٹھائے اور یہ ضرورت بھی تھی کہ آج 21 ویں صدی میں بھی چولستان میں لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ تعلیم ، صحت ، روزگار اور مواصلاتی سہولتوں کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں۔ چولستان دنیا کے بڑے صحراؤں میں شمار ہوتا ہے ، یہ صحرا ہزاروں مربع میل پر پھیلا ہوا ہے ۔ محققین بتاتے ہیں کہ ہزاروں سال پہلے یہ دریاؤں کا علاقہ تھا ، دریائے گھاگھرا، دریائے ہاکڑہ ، سرسوتی مختلف نام آتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ اس علاقے کی خوبصورتی شادابی اور زرخیزی کی بناء پر حملہ آور اس علاقے آتے رہے ۔ سکندر آعظم کے یہاں آنے اور خونریزی کرنے کا ذکر ملتا ہے ۔ چولستان کی ریت میں بہت راز ہیں ، چولستان کے لوگ بہت سادہ اور دلنواز ہیں ، وہ اپنی دھرتی ، اپنی مٹی اور وسیب سے اس قدر محبت کرتے ہیں کہ انسانی زندگی کی کوئی بھی سہولت نہ ہونے کے باوجود بھی وہ صدیوں سے چولستان سے وابستہ ہیں اور وہ ایک پل کیلئے بھی اسے چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ، وہ نسل در نسل ایک آس پر زندگی گزار رہے ہیں ، چولستان کے جس باشندے سے آپ پوچھیں ، وہ کہے گا کہ ’’ ہاکڑہ ول واہسی ‘‘ یعنی دریائے ہاکڑہ ایک بار پھر آئے گا اور ہم صحرا سے دریا میں تبدیل ہو جائیں گے ۔ چولستان کے گمشدہ دریا کا قصہ ہر زبان پر ہے ۔ چولستان میں خوبصورت تہذیب کے عظیم ترین خزانے دفن ہیں ۔ مدفون خزانوں میں تہذیبی آثار اور ثقافتی علامات تو نظر آئی ہیں مگر ہتھیار نہیں ملے ۔ ابو عبداللہ محمد المعروف ابن بطوطہ مسلمان سیاح تھا ، اس نے دنیا کے بیشتر علاقوں کی سیاحت کی ، وہ سیاحت کے سلسلے میں اوچ بھی آیا ، جس میں انہوں نے اس شہر کو علم کا مرکز قرار دیا ۔ اوچ چولستان کے ملحقہ علاقے میں تھا اور یہ سب سلطنت ملتان کا حصہ تھے ۔معروف تاریخ دان پروفیسر جاوید عثمان شامی اپنی کتاب ’’ چولستان کی تاریخ و ثقافت ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ محمود غزنوی نے 1000 ء سے 1036ء تک ہندوستان پر سترہ حملے کئے ، ان حملوں کا مقصد لوٹ مار اور مال غنیمت سمیٹنا تھا ‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’ ان کے حملوں سے مسلمانوں کی مرکزی حکومت کو شدید نقصان پہنچا اور بہت سی چھوٹی چھوٹی خودمختار مسلم ریاستیں بھی لوٹ مار کی زد میں آئیں اور کہا جاتا ہے کہ غزنی ان دنوں دنیا کی امیر ترین ریاست بن گئی تھی کہ وہاں بہت زیادہ لوٹ مار کا مال جمع ہوا ۔ محمود غزنوی نے اوچ اور چولستان پر بھی حملہ کیا ، یہ علاقے اس وقت ریاست ملتان کا حصہ تھے ۔ چولستان بلاشبہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے ۔ تاریخی کتابوں حتیٰ کہ بر صغیر کی قدیم کتاب ’’ رگ وید ‘‘ میں بھی چولستان کے دریاؤں کا ذکر موجود ہے ۔ آج کا یہ صحرا پہلے دریا تھا اور موہنجو دڑو اور ہڑپہ کے درمیان وادی ہاکڑہ کی شکل میں یہ خطہ ہنستے بستے شہروں اور لہلہاتے کھیتوں پر مشتمل تھا ۔ معروف آرکیالوجسٹ ڈاکٹر رفیق مغل نے اپنی تحقیقات میں چولستان میں 13سو شہروں اور بستیوں کی نشاندہی کی ہے ۔ مگر افسوس کہ چولستان پر کی جانیوالی تحقیقات کو آگے نہیں بڑھایا گیا ۔چولستان میں نئے سرے سے تحقیق اور ریسرچ کی ضرورت ہے اور حکومت پاکستان کی فوری توجہ کی اس بناء پر ضرورت ہے کہ صحرائے چولستان بھارت کا ملحقہ علاقہ ہے ۔ اگر بھارت کے صحرا راجستھا ن میں چولستان کے مقابلے میں کم سہولتیں ہونگی تو احساس محرومی کا پیدا ہونا لازمی امر ہے ، چولستان عظیم تہذیبی و ثقافتی صحرا ہے ، وہاں بسنے والوں کی الگ دنیا ہے، الگ رسم و رواج ہیں ، وہاں کی شادیاں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں ، چولستان کے لوگوں کے خوبصورت لباس ان کی خوبصورت تہذیب کو ظاہر کرتے ہیں ۔ چولستان کے نباتات پر تحقیق کی جائے تو وہ بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں ایک خود رو خوشبو دار پودے قطرن سے کشید کی جانیوالی خوشبو فرانس کی خوشبو سے اعلیٰ ہے ، پہناوے کے ساتھ چولستانیوں کے زیورات بھی الگ ہیں ، چولستان کے فنکاروں کی موسیقی دل موہ لینے والی ہے ، وہاں پیدا ہونے والا قدیم و جدید ادب اپنی مثال آپ ہے ، چولستان میں جھوک کے نام سے عارضی ٹھکانے ہیں، وہاں خانہ بدوش بھی ہیں جن کو مقامی زبان میں پکھی واس کہاجاتا ہے ۔