ہم ماضی میں بہت کچھ دیکھ چکے ہیں، گزشتہ دو دہائیوں سے تو وہ کچھ دیکھ چکے ہیں کہ جسے دیکھ کر اکثر کہا کرتے تھے کہ یہ ہماری زندگی میں پہلی بار ہوا ہے۔ مشرف و ضیاء کا مارشل لاء دیکھا، ایمرجنسی دیکھی اور اُس کی حکومت دیکھی، لاٹھیاں اور گولیاں چلتے دیکھیں۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو ایک دوسرے کا گریبان پھاڑتے دیکھا، پھر زرداری صاحب کی حکومت دیکھی جس کے آخری دنوں میں اتوار کو بنک کھلوا کر ٹرانزیکشن کی جاتی تھیں۔ افتخار چوہدری کی عدلیہ بحالی تحریک دیکھی، پھر ن لیگ کو اس تحریک کا پرچار کرتے دیکھا اور سوچنے پر مجبور ہوئے کہ کیا یہ وہی ن لیگ ہے جس نے 90کی دہائی میں اسی کورٹ پر حملہ بھی کیا تھا۔ خیر آنکھوں کو یقین تو نہ آیا مگر کیا کریں پاکستان میں بہت کچھ چونکہ ’’پہلی بار‘‘ ہوتا ہے اس لیے ہمیں بھی صبر آہی جاتا ہے۔ اور اب جو کچھ 9مئی کو ہوا؟ کیا اس بارے میں بھی کوئی سوچ سکتا تھا؟ نہیں ناں! یہ بھی سوڈان، شام یا چاڈ جیسے ممالک کے بعد حالیہ تاریخ میں صرف پاکستان میں ہوا ہے۔ اور پھر اُس کے بعد جو کچھ ہو رہا ہے؟ کیا اُس کے بارے میں بھی کوئی سوچ سکتا تھا؟ نہیں ناں! یہ بھی افریقی ممالک کے بعد صرف پاکستان میں ہورہا ہے۔ فرانس جیسے ترقی یافتہ ملک میں 2019کے مہنگائی کے خلاف پرتشدد احتجاج کے بعد پولیس کی اتنی جرأت نہ ہو سکی کہ وہ کسی بھی شہری کے گھر چھاپہ مار سکے۔ بلکہ جو گرفتار ہوئے اُنہیں بھی 72گھنٹے کے اندر رہا کر دیا گیا۔ عوام حکومتی بد انتظامی اور مہنگائی سے تنگ ہیں ، یہ بات ہمارے حکمرانوں ، فیصلہ کرنے والی قوتوں اور بیوروکریسی کو سمجھنا چاہیے کہ ریاست کا کردار ایک ماں کی طرح ہوتا ہے۔ ریاست کی طاقت عوامی مفاد میں استعمال کرکے عوام کو آسانیاں اور آزادیاں دینے کے لیے ہوتی ہے۔ ایک ریاست بنیادی طور کئی اہم فرائض کے لیے وجود میں آتی ہے۔پاک فوج کی قربانیوں لائق تحسین ہیں ۔ مشکل وقت میں اس نے شہریوں کی مدد کی ۔ لوگ اس سے پیار کرتے ہیں کچھ حلقے اس پیار میں دراڑ ڈال کر اپنی سیاست چمکانا چاہتے ہیں ۔ ایک واقعہ بتاتا چلوں کہ میرے ایک دوست ہیں۔ اُن کا بیٹا بھی تحریک انصاف کا سپورٹر ہے، مگر کارکن نہیں۔ دوست بتاتا ہے کہ 9مئی کو میرا بیٹا جس کی عمر 20سال ہے، وہ بھی عمران خان کے ساتھ یکجہتی کے لیے لبرٹی گیا، وہاں اکثر جایا کرتا تھا۔ مگر اُس دن جب ہجوم نے کینٹ کی طرف رخ کیا تو وہ حالات کی سنگینی کو دیکھ کر وہاں سے نکل آیا، لیکن نہ جانے اُسے کیا سوجھی یا دوستوں کے کہنے پر کینٹ میں چلا گیا اور ایک بلڈنگ کو جلتا ہوا دیکھتا رہا۔ حالات زیادہ بگڑنے کی صورت میں وہ اور اُس کا دوست وہاں سے نکل آئے۔ مسئلہ یہ ہوا کہ اُس کا نام بھی ’’مطلوب افراد‘‘ کی فہرست میں آگیا۔ دوست مزید بتاتا ہے کہ ایس ایچ او نے پوری ’’ٹیم‘‘ کے ہمراہ ہمارے گھر ایسے ریڈکی جیسے ہم سب دہشت گرد ہیں۔انہوں نے بیٹے کو گرفتار کیا اور ساتھ مجھے بھی لے گئے۔ رات بیٹے کے ساتھ حوالات میں رکھنے کے بعد مجھے صبح چھوڑ دیا، جس کے بعد میں اپنے بیٹے کے بارے میں بہت پریشان ہوا، وکلا سے بات کی، ایک دو فوجی افسران سے بات کی مگر کوئی بھی سننے کو تیار نہ تھا۔پریشانی یہ ہے کہ اُس کے ساتھ مستقبل میں کیا ہوگا، اور اُس کے گھر والوں پر کیا بیت رہی ہے؟ یہ رب جانتا ہے یا اُس کا باپ! یا اُس کی فیملی کے لوگ۔ حکومت اس دن ہونے والے واقعات پر ایک بیانیہ بنا چکی ہے ، ہزاروں افراد اس وقت جیلوں میں ہیں۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ پولیس ہر اُس علاقے میں جا کر تحریک انصاف کے کارکنوں کی فہرستوں کے مطابق سب کو گرفتار کر رہی ہے اور بیان حلفی لے رہی ہے کہ اُن کا تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں! یہ حلف لے کر بھی اُنہیں ہراساں کر رہی ہے۔ حالانکہ یہ وہ قوم ہے جو شاید آپ کی نظر سے ایک ویڈیو گزری ہو، جس میں ایک لڑکا پل پر چڑھ کر ایک سائیڈ پر بائیک کھڑی کر کے نیچے دیکھ رہا ہوتا ہے، تواُسے دیکھا دیکھی سینکڑوں موٹر سائیکل سوار اور گاڑیوں والے رک کر نیچے دیکھنا شروع کردیتے ہیں، جس سے پورا روڈ بلاک ہو جاتا ہے۔ یعنی ہم میں شعور برائے نام نہیں رہا، بس دیکھا دیکھی بھیڑ چال چلتے ہوئے بغیر منزل کے مسافر ہیں۔ لہٰذا9مئی کو آدھے سے زیادہ افراد تو وہ ہیں جو اہم تنصیبات پر محض ’’کارروائی‘‘ کو دیکھنے گئے تھے۔ لہٰذاان کے درمیان اگر فرق کرنا ہے تو پکڑے جانے والے ملزمان کا سب سے پہلے کریمنل ریکارڈ چیک کیا جانا چاہیے، اگر کوئی واقعی کریمنل ریکارڈ رکھتا ہو تو اُسے قرار واقعی سزا بھی دینی چاہیے ۔ جو قابل احترام یادگاروں پرتوڑ پھوڑ میں ملوث نظر آئیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے لیکن جو عام لوگ ہیں جو غلط وقت پر غلط جگہ موجود تھے، اُن پر رحم کیا جائے۔ اُنہیں ریاست سے متنفر نہ کیا جائے۔ بہرحال گرفتار ہونے والے سب پاکستانی شہری ہیں ان سب کی اصلاح ہو سکتی ہے، پوری قوم کی اصلاح کریں، اگر کہیں پشتون ناراض ہیں تو اُنہیں ایجوکیٹ کریں، بلوچ ناراض ہیں تو اُنہیں پہاڑوں سے نیچے لے کر آئیں، ایم آرڈ ی تحریک کے بعد سندھی بھی ہم سے ناراض ہوئے۔ 1983ء کے بعد تو سندھ میں رات کو سفر کرنا ناممکن ہو گیا تھا۔ ابھی بلوچستان میں بھی یہی حال ہے۔ تبھی عوام حکومتوں سے متنفر ہو چکے ہیں۔ آپ اس سے پیچھے چلے جائیں ، سانحہ مشرقی پاکستان کے وقت بھی قوم کے رہنماوں سے غلطیاں ہوئیں۔ تبھی عوام میں غم و غصہ اور بے چینی جیسی کیفیت پائی جاتی تھی۔ اور پھر پیپلزپارٹی کے ساتھ 10 سال تک جو کچھ ہوا کیا پیپلزپارٹی ختم ہوگئی ؟ میرے خیال میں کبھی ختم نہیں ہوگی، ایسے سختی کرنے سے کسی پارٹی کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔اس لیے سیاسی سطح پر لوگوں کو جوڑنے کی کوشش کریں۔ لوگ ولی خان کی پیش گوئی دہرا رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آخری جنگ پنجاب سے ہی لڑی جائے گی۔ اسٹیبلشمنٹ ہماری ہے ، ادارے ہمارے ہیں ۔ان کا احترام ضروری ہے لیکن ادارے سوچیں کہ کس وجہ سے عوام کا ردعمل بڑھتا ہے۔ ایسا نہ ہوکہ ہم سب ہاتھ ملتے رہ جائیں گے اور دشمن فائدہ اُٹھاجائے گا ! ٭٭٭٭٭