پی ڈی ایم کی حکومت نے بڑی کامیابی کے ساتھ پی ٹی آئی کے ساتھ جاری سیاسی لڑائی کواداروں اور عمران خان کے درمیان کشیدگی میں بدل دیا۔ اسی دوران کچھ ناعاقبت اندیش افراد نے فوجی تنصیبات پر حملے کر کے نہ صرف غیر ذمہ داری کا ثبوت دیابلکہ جلتی آگ پر تیل ڈالا۔ چنانچہ پاکستان تحریک انصاف کے لیے دستیاب سیاسی سپیس اور کم ہوگئی ہے۔عالم یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان اور مریم نواز عمران خان اور چیف جسٹس کو برداشت کرنے کوتیار نہیں۔ ان کے حامی سپریم کورٹ کے سامنے ہونے والی اشتعال انگیز تقریروں کا ذکر ہی نہیں کرتے۔عمران خان کی سرگرمیوں کاماحاصل یہ ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو نشان عبرت بنانا چاہتے ہیں۔ جاری شور غوغے اور ہاہاکارسے فرصت ملے تو یہ گفتگو ضرور کرنی چاہیے کہ پاکستان کوموجودہ بحران سے کیسے نکالا جائے تاکہ سیاسی استحکام قائم ہوسکے۔بازار سیاست میں قرار لوٹ کر آسکے۔یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اگر موجودہ سیاسی جمود برقراررہتاہے تو معیشت مزید برباد ہوگی۔ غیر ملکی سرمایا کاری تو درکنار بیرو ن ملک پاکستانی بھی وطن عزیز کا رخ کرنا چھوڑدیںگے۔ سب بند گلی میں پھنس چکے ہیں۔ٹیکنوکریٹ حکومت پر غالباًحکمران اتحاد راضی ہوگا نہ پی ٹی آئی۔ جنرل الیکشن سے فرار ممکن نہیں۔دقت یہ ہے کہ الیکشن میں جو شکست کھائے گا وہ لنگوٹ کس کر الیکشن کی شفافیت کو چیلنج کرے گا اور حکومت کو ٹکنے نہیں دے گا۔ الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھتے ہیں اور آئندہ بھی الیکشن کمیشن کی نیت اور طرزعمل پر نکتہ چینی جاری رہے گی۔ شفاف الیکشن اور پرامن انتقال اقتدار وہ نکتہ ہے جس پر تمام جماعتوں کو ازسر نو بیٹھ کر مذاکرات کرنے ہوںگے۔ قومی سلامتی کونسل کے مشترکہ اعلامیہ میں بھی اس جانب توجہ دلائی گئی کہ تمام اسٹیک ہولڈرمذاکرات کے ذریعے سیاسی مسائل کا حل تلاش کریں۔ پی ٹی آئی نے ایک مذاکراتی کمیٹی بنائی لیکن نون لیگ کے وزرا ء نے ایسا اودھم مچا دیا کہ مذاکرات کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔مذاکرات کا سلسلہ جہاں ٹوٹا تھا وہاں سے ہی دوبارہ شروع ہوناچاہیے۔تناؤ کے موجودہ ماحول میں پیپلزپارٹی سیاسی درجہ حرارت کم کرانے اور متنازعہ امور پر اتفاق رائے پیدا کرانے میں کردار ادا کرسکتی ہے۔جاری کشیدگی، توڑپھوڑ اور سیاسی عدم استحکام سے تمام اسٹیک ہولڈروں کو سبق سیکھ کر مستقبل کا لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیے۔ نیلسن منڈیلا کو فروری 1990ء میں جنوبی افریقہ کی حکومت نے ستائیس سال بعد جیل سے رہا کیا۔ منڈیلا کو جنوبی افریقہ ہی نہیں بلکہ امریکہ اور برطانیہ کی حکومتوں نے بھی دہشت گرد قراردیاتھا۔ باوجود اس کے کہ انہوں نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کیے۔ صدر بننے کے بعد مخالفین کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی۔ان کی سیاسی بصیرت نے جنوبی افریقہ کوانتقام کی آگ میں خاکستر ہونے سے بچا لیا۔ سیاسی مسائل اور بحران کو طاقت کے بل بوتے پر حل کرنے کے بجائے حکمت اور دانائی کے ساتھ ان کاحل تلاش کیا جائے۔ یہ تسلیم کیا جائے کہ گزشتہ 75 برسوں سے پاکستان کی لیڈرشپ کوئی ایسا نظام وضع کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے جو شفاف الیکشن اور پرامن انتقال اقتدار کی ضمانت فراہم کرتاہو۔پی پی پی ، نون لیگ اور پی ٹی آئی کو اسٹیبلشمنٹ نے گود لیا۔ پالا پوسا ۔من بھرگیا تو دھتکار دیا۔ ردعمل میں یہ جماعتیں ان پر چڑھ دوڑیںتو ان کی منجی ٹھوک دی گئی۔یہ سلسلہ اب تمام ہونا چاہیے۔ پی ٹی آئی آج کل پریشان ہے۔ظاہر ہے کہ دباؤ برداشت کرنا ہر کسی کے بس میں نہیں ۔ کمزور اعصاب اور عہدوں کے لالچی پی ٹی آئی چھوڑ یں گے اور کچھ سیاست سے بھی تائب ہوجائیں گے۔ لوگ انہیں چمچے، لوٹے اور لفافے کے القابات سے نوازیں گے۔ تادم مرگ وہ دل ہی دل میں کڑھتے رہیں گے۔پی ٹی آئی کا ووٹر اور اس کے حامی بالخصوص معاشرے کے فعال طبقات نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے گھر بیٹھ جائیں گے۔ ان میں سے اکثر و بیشتر نون لیگ اور پی پی پی کے طرزحکومت سے بددل ہوکر عمران خان کے ہمرکاب ہوئے تھے۔ ستر کی دھائی میں پیپلزپارٹی اور اس وقت کی ضیا حکومت کے درمیان ہونے والی لڑائی کے اثرات سے ملک ابھی تک باہر نہیں نکل پایا ہے۔جنرل کے ایم عار ف نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ عبدالولی خان نے بھی ضیا ء الحق کو ڈرایااور کہا کہ قبر ایک ہے اور بندے دو۔اب آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ کس نے زندہ رہنا ہے ۔چنانچہ ضیا نے اپنا آپ بچایا لیا اور بھٹو پھانسی پرجھول گئے۔ یہ وہی ضیا ء الحق تھے جنہیں بھٹو حقارت سے ناگفتہ نام لے کر پکارتے اور وہ جواب میں مسکراتے ۔ ذوالفقارعلی بھٹو کی اس وقت کی عسکری لیڈرشپ سے گاڑھی چھنتی تھی۔ان کی جوشیلی تقریروں ،رواں دواں انگریزی اور معاملہ فہمی سے جنرل یحییٰ خان اور ان کے جانشین بہت مرعوب تھے۔اس قدر باہمی محبت اور احترام کے باوجود بھٹو صاحب اور ان کے خاندان کو ناقابل تلافی جانی اور مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔دانش کا تقاضہ ہے کہ عمران خان کشیدگی کم کرنے میں پہل کریں۔بے شک یہ ان کی سیاسی کمزوری ہی کیوں نا گردانی جائے۔سیاست میں کبھی دوقدم آگے اور ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑتاہے۔ آسمان نہیں ٹوٹ پڑے گا اگر الیکشن چندماہ تاخیر سے ہوجائیں ۔ایک قومی سطح کی اعتدال پسند سیاسی جماعت کو ریاست کے ساتھ اور ریاست کو اس کے ساتھ ٹکرانا نہیں چاہیے ۔ ایک ایسی سیاسی جماعت جو کراچی سے خیبر تک پاکستانیوں کو ایک لڑی میں پروتی ہے اسے قائم ودائم رہنا چاہیے۔ایک ایسی جماعت جس پر لاکھوں سمندر پار پاکستانی جان چھڑکتے ہوں اسے دیوار کے ساتھ لگانے کے منفی اثرات تصور سے کئی زیادہ ہوں گے۔ سیاسی جماعتیں اور سیاسی کارکن ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ انہیں جیلوں میں ڈال کر رسوا کرنے،ان کی عورتوںکی تذلیل کرنے سے پاکستان اور کمزورنہیں بلکہ نڈھال ہوجائے گا۔فواد چودھری شیریں مزاری کی صاحبزادی کی آہ بکاہ کا مذاق نہ اڑائیں۔سیاسی کارکن بھی ایک کنبے کی طرح ہوتے ہیں۔ دکھ سکھ سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔ احمد فرازنے سیاسی نشیب وفراز کی خوب منظر کشی کی ہے: میں آج زد پہ اگر ہوں تو خو ش گمان نہ ہو چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں