اخلاق مزاری ، وادی سندھ کا شاعر ، آجکل اداس ہے۔ دریائے سندھ میں سیلاب آیا ہوا ہے اورسیکڑوں خاندان اس کے کناروں پر کھلے آسمان تلے پڑے ہوئے ہیں۔ یہی اس شاعر کی اداسی کا سبب ہے۔ یہ منظر وہ اپنے بچپن سے دیکھتا چلا آرہا ہے۔ ایک تاریخ ہے جو اپنے آپ کو دہراتی چلی جارہی ہے۔ میانوالی سے لیکر رحیم یار خان تک اس دریا کے بیٹ اور بیلوں کے مکین ہر سال ، ساون اور بادھوں میں ، کچے کے علاقے سے نکل کر سڑکوں کے کنارے جھگیاں اور خیمے لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور اسکے پانیوں کے اترنے کا انتظار کرتے ہیں۔ بے یارو مددگار لوگ۔ انہیں اپنے لیے کھانا چاہیے تو جانوروں کے لیے چارہ۔ بیماری کی صورت میں علاج بھی۔ مہینوں لگ سکتے ہیں انہیں واپس جانے میں۔ واپس چلے بھی جائیں تو یہ لوگ آباد نہیں ہو پا ئیں گے۔ حقیقت میں یہ لوگ کبھی آباد نہیں ہوپاتے۔ یہی قسمت ہے ان لوگوں کی کیونکہ دریا کا اصول ہے کہ اپنے دامن میں کسی کو آباد نہیں ہونے دیتا۔ اگر کسی نے بستیاں اور شہر بسانے ہیں تو اسکی حدود و قیود سے دور بسائے۔ واپسی ہوگی تو مناسب زمین دیکھ کر گندم اور دالیں کاشت کریں گے، مچھلی پر گزارا کریں گے ، حالات مناسب ہوئے تو شادی بیاہ کے معاملات نمٹائیں اور یوں سال گزرجائیگا، ایک مخصوص ستارے کے آسمان پر ظاہر ہونے کے ساتھ ہی دوبارہ نقل مکانی کی تیاریا ں شروع کردیں گے کہ کب سیلاب ان پر آفت بن کر ٹوٹ پڑے۔ مویشی ہی انکا کل ترکہ ہیں، انہیں ہانکیں گے اور باقی سب چھوڑ چھوڑ چھاڑ کر ، دریا کے حوالے کر کے، کناروں کی طر ف چل دیں گے۔ میلوں پھیلے اس دریا میں کتنے لوگ آباد ہیں، کہاں سے آئے ہیں اور کہاں جانا چاہتے ہیں،یا کہیں جائیں گے یا پھر یہیں کے ہوکر رہ جائیں گے، آج تک کسی نے ان کے بارے میں نہیں سوچا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بہت سوں کے پاس شناختی کارڈ تک نہ ہو۔ دوہزار دس کے سیلاب کے نتیجے میں سامنے بے گھر ہونے والوں کی تعداد بیس لاکھ بتائی گئی تھی۔ کچے کے علاقے ہیں، نہ سڑکیں ہیں ، نہ کوئی پل۔نہ پولیس نہ عدالتیں اور نہ ہی بندوبست اراضی۔ رسم، ریت اور رواج کے سہارے یہ لوگ اپنی پوری زندگی گزاردیتے ہیں۔ اخلاق مزاری کی بستی اس دریا سے مشرق کی طرف ایک میل کے لگ بھگ دور ہے۔ وہ سیلاب زدگان کے دکھ اور مصائب کو سالہا سال سے دیکھ رہا ہے۔ دریا نہیں چاہتا کہ اس کے راستے میں کوئی جھگیا ں لگائے، لیکن لوگ ہیں کے قبائل کے قبائل یہاں آتے ہیں اور یہیں کے ہوکر رہ جاتے ہیں، نسلیں لگ جاتی ہیں انہیں دریاکے علاقوں میں اپنی زندگی بنانے میں۔ ایسے بھی قبیلے ہیں جو دریا کی راہگزر میں سفر کرتے رہتے ہیں۔ اخلاق مزاری کے پاس ان اداس لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ ان کے دکھ درد سے آشنا ہے، اسے محسوس بھی کرتا ہے۔ اس دکھ کی کسک اس کی شاعری میں ہے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ سندھ ایک اداس دریا ہے۔ اس کا پانی ، پتن ، کشتی اور ملاح سب اداس ہیں۔ اس کے دامن میں رہنے والے لوگ بھی اداس ہیں۔ دریا سندھ کے کنارو ں پر اداسی اگتی ہے۔ غم کی فصلیں پکتی ہیں۔ اس دریا کے کناروں کے ساتھ دوڑتے تھل اور دامان دونوں اداس ہیں۔ یہاں کے شاعر اداسی لکھتے ہیں۔ احمد خان طارق، اشو لال ، اشتر ، آصف سب اس دریا سے جڑی اداسی کو اپنے دوہڑوں ، کافیوں، غزلوں اور گیتوں میں جگہ دیتے ہیں۔ مشہور زمانہ سسی پنوں کی داستان کا تعلق بھی اسی دریا سے ہے۔نجومیوں کی اس پیش گوء سے گھبرا کر کہ یہ بڑی ہوکر ایک غیر قوم کے فرد سے شادی کرے گی، شاہ آدم نے اپنی نومولود بچی کو صندوق میں ڈال کر سندھ کی لہروں کے حوالے کردیا تھا۔ سسی بھبنور میں ایک دھوبی کے ہاں پہنچی، پلی بڑھی ، جوان ہوئی اور مکران کے شہزادے پنو خان سے شادی کی، لیکن سہاگ رات نصیب نہ ہوئی کہ اسکے بھائی راتوں رات اسے مکران لے گئے۔ سسی تھل میں اسے ڈھونڈنے گئی اور لق ودق صحرا اسے نگل گیا۔ یہ خواجہ فرید کا بہت بڑا موضوع ہے۔ سندھ دریا میں داخل ہونے والے قبیلے دامان سے اترتے ہیں ، کچھ عرصہ کچے کے علاقے کو مسکن بناتے ہیں، تھل میں بسیرا کرتے ہیں۔انکی منزل ہمیشہ سے ملتا ن رہا ہے۔ ملتان ایک اور ہی جہان ہے۔ اس سے پہلے انہیں عشق کا دریا ، چناب، پار کرنا ہوتا ہے۔ یہ وہ دریا ہے جسے ڈوب کر پار کرنا پڑتا ہے۔ اداسی سے چھٹکارا پانے کا ایک ہی راستہ ہے، عشق۔ اگر یہ راستہ نہ اپنایا جائے تو اداسی روگ بن جاتی ہے، اداس نسلیں پیدا کرتی ہے۔ اداسی اپنا ایک بیانیہ تخلیق کرتی ہے اور عقیدے سے ہوتی ہوئی فرقے میں ڈھل جاتی ہے، اپنی حدیں اور دیواریں اسارتی ہے، سیاست بیچ میں آتی ہے تو قبائلیت جاگ پڑتی ہے۔ یہی سیاست قبائل کو ایک لڑی میں پرونے کے لیے قوم کا تصور تخلیق کرتی ہے۔ لیکن اداس لوگ قوم نہیں بن سکتے۔ کوشش ہوئی اور ہو رہی ہے، لیکن کچھ بھی نہیں ہوگا۔ اداس لوگوں کو ایک قوم بننے سے پہلے بنیادی حقوق کی جدوجہد کرنا پڑے گی، عشق کے راستے پر چلنا ہوگا، منزل پانے کے لیے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے ان اداسیوں کے پاس۔ گھمنڑ گھیر فرید کپر دے نہ تڑ ڈسم نہ ٹانگ