جب حکمران ہی مہنگائی کو بڑھاوا دینے پر آجائیں اور معاملات ہنگاموں، ہڑتالوں ،دھرنوں ، جلوسوں تک پہنچا دیں تو اس افراتفری کا کھْرا کہاں لے جائیں۔ اگر محصولات ہی بڑھانے تھے تو امیر طبقہ پر خصوصی ٹیکس لگاکر حالات کو سنبھالا جاتا ، مراعات واپس لی جاتیں اور کفایت شعار اختیار کی جاتی، آخر کب تک بھوک ، بیماری اور بیکاری کے شکار عوام پر ہی بجلیاں گرائی جائیں گئی؟ معیشت کا پہیہ رکا ،لوگوں کی جیب پر ڈاکہ پڑا، سرکار کی ساکھ الگ داغ دار ہوئی۔ اب جب اندرونی حالات دگرگوں ہیں، مغربی سرحدوں پر بھی دہشت گرد سر اٹھانا شروع ہوگئے ہیں۔ عبوری حکومت اپنے پیشرو ں کے نقش قدم پر چلی ہے تو عوام انتخابات کے حوالے سے بھی مخمصے کا شکار ہوگئے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ پہلے مسئلہ دوصوبوں تک محدود تھا اور سامنے ایک معتوب سیاسی پارٹی تھی، اس وقت پورے ملک میں انتخابات کرانے ہیں اور سامنا ہے بپھری عوام سے۔ سیاسی اور معاشی بدحالی نے عوامی قیادت اور نمائندگی کے معیار کا بھانڈا پھوڑ کر رکھ دیا ہے۔جو حقِ اقتدار کے دعوے کر رہے ہیں وہ اب عوام سے گریزاں ہیں۔ ثابت ہوچکا کہ اشرافیائی جمہوریت نہ تو لوگوں کے بنیادی حقوق کی پاسدار ہے اور نہ ہی اس میں معیشت کا پہیہ چلانے کی صلاحت ہے۔ کوئی توجیح نہیں سوائے اس کے کہ اشرافیہ اپنی ناک سے پرے نہیں دیکھ سکتی۔ بیرونی قرضوں پر اللے تللے تو کیے لیکن جب بوجھ اٹھانے کا وقت آیا تو ملبہ عوام پر ڈال دیا گیا۔ عام انتخابات کے انعقاد کا امکان تیزی سے معدوم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ انتخابی قوانین میں سقم موجود ہیں اور الیکشن کمیشن میں اس صلاحیت اور طاقت کا فقدان ہے جو تیزی سے بڑھتی معاشی ناہمواریوں اور سیاسی ناچاقیوں کی موجود گی میں شفاف اور پر امن انتخابات کر اسکے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ آئین تضادات سے بھرا ہے (شہریت کا تصور) اور عدلیہ منقسم۔ ایسے میں انتخابات ، جوکہ جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ازحد ضروری ہیں ، کا انعقاد مہنگا ہی نہیں بلکہ گھاٹے کا سودا ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ چیلنجز تو ہیں لیکن سیاسی کھیل میں موجود حرکیات کی گہرائی میں جانا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ آسمان کو چھوتے ہوئے بجلی کے بلوں اور ایندھن کی قیمتوں کے خلاف مظاہروں سے سامنے آنے والے عوامی رد عمل کو حیرت ناک حد تک غیر سنجدیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ عوام ایسی معاشی پالیسیوں اور فیصلوں کا خمیازہ بھگت ہیں جو اشرافیہ کے مفادات کی آبیاری پر مرتکز ہیں۔ معاشی خدشات سے ہٹ کر، مغربی سرحدوں پر بدامنیبڑھ رہی ہے۔ معاشی بدحالی اور سلامتی کے خطرات کا سنگم محتاط غور و فکر اور فیصلہ کن اقدام کا تقاضا کرتا ہے۔ پاکستان کے موجودہ سماجی و اقتصادی چیلنجوں کی جڑیں گہری ہیں۔ پنجاب کی تقسیم کے نتیجے میں تین اہم مشرقی دریاؤں (ستلج، راوی اور بیاس) پر کنٹرول ختم ہو گیا، جو طویل عرصے سے ہماری زرخیز زمینوں کو سیراب کرتے تھے۔ ان کے بنائے گئے بیٹ ، بیلوں میں غذائی خود کفالت کا سامان میسر تھا۔ بنگال کی تقسیم نے صنعتی بنیادیں مسمار کردیں ، جس سے قوم معاشی طور پر کمزور ہو گئی۔ جاگیردارانہ نظام نے ملک کے سماجی تانے بانے پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، جو سقوط ڈھاکہ کے بعد بھی برقرار ہیں۔ وطن ِعزیز نے جمہوریت کی کئی بہاریں دیکھیں، لیکن سماجی و اقتصادی ڈھانچے پر اس کے اثرات محدود رہے ہیں۔ 2008ء کے بعد جمہوریت تسلسل کو بڑی حد تک آزاد معشیت کے لیے آئی ایم ایف کے دیے گئے قرضوں سے منسوب کیا جا سکتا ہے، معاشرے کے اندر وہ طاقت نہیں تھی جو اس عمل کے لیے درکار ہوتی ہے۔سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے، ناکام ترقیاتی منصوبے شروع کرنے اور قومی اداروں میں سیاسی بھر تیوں کے علاوہ ان قرضوں کا کوئی مصرف سامنے نہیںآیا۔ اب حکمران جماعتوں کی جانب سے مناسب احتساب کے بغیر خرچ کیے گئے قرضوں کے حساب کا وقت آیا ہے ، تو بوجھ کو عام شہریوں پر ڈال دیا گیا ہے۔ ایسے وقت میں جب ریاست کی سالمیت کو خود غرض اشرافیہ سے خطرہ لاحق ہے، "ایک صفحہ" کے منتر پر اصرار حیران کن نظر آتا ہے۔نگران حکومت کا رویہ بھی اتنا ہی پریشان کن ہے جو مخلوط حکومت کے راستے پر آنکھیں بند کر کے چلے جا رہی ہے: بیرونی قرضوں کا بوجھ انہیں پر جنہیں دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہیں،کفایت شعاری سے دور اور یک طرفہ احتساب میں مگن۔ حکمرانوں کا معیشت کو بچانے کے لیے عوام کو پسماندہ کرنے پر اتفاق جمہوریت ہی نہیں قومی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال رہا ہے۔ اب جبکہ امریکہ تک یہ کہہ رہا ہے کہ معیشت کو پٹری پر لانے کے لیے اصلاحات ناگزیر ہیں تو حکمران ادھر ادھر دیکھ رہے ہیں کیونکہ اس کا سیدھا سادھا مطلب امیر طبقے کو ٹیکس کے دائرہ میں لانا ، مراعات کی واپسی اور کفایت شعاری ہے۔ اشرافیہ کی تازہ ترین امید اب غیر ملکی سرمایہ ہیں اور اس کے لیے قومی اثاثوں کی فروخت کا سوچ رہی ہے۔ مہنگی توانائی اور بے لگام مذہبی انتہا پسندی کی موجودگی میں مقامی سرمایہ کار رسک نہیں لیتے تو باہر والوں کو کیا پڑی ہے؟