عالمی مالیاتی فنڈ جسے عرفِ عام میں آئی ایم ایف کہتے ہیں اور اس ’’عرف‘‘ سے اب پاکستان کا بچہ بچہ واقف ہو چکا ہے۔ عام آدمی اس کے بارے میں فقط اتنا جانتا ہے کہ اگر یہ پاکستانی حکومت کو قرض دے تو حکومت خوشحال اور یہ قرض روک دے تو بدحال ہو جاتی ہے۔ سودی قرض اس مملکت کی رگ و پے میں حکمرانوں نے اس قدر زہر کی طرح بھر دیا ہے کہ اب یہ ہمیں زندگی لگتا ہے اور اگر کوئی شخص پاکستان کو آئی ایم ایف کے قرض کے جال سے نکلنے کے لئے کہے، براہِ راست ایک مہم چلائے کہ ہم اس سودی قرضے کے جنجال سے نکلیں اور کوئی اس ملک کے اداروں یا صوبوں کو ایسی ترغیبات دے کہ جن پر عملدرآمد کرنے سے یہ ملک آئی ایم ایف کے شکنجے سے باہر آ جائے تو اس شخص (شوکت ترین) پر غدّاری کا مقدمہ درج کر دیا جاتا۔ سودی قرض کے جال سے نکلنے کے لئے بظاہر یا درپردہ کوشش کرنا ایسی مملکتِ خداداد پاکستان میں غدّاری جیسا جرم ہے جس کا دستور اسلامی کہلاتا ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ وہ تمام علمائے کرام جو اس وقت حکومت کا حصہ ہیں، وہ بھی اپنی پوری صلاحیتیں اس بات میں صرف کر رہے ہیں کہ حکومتِ پاکستان کے سودی نظام کے عالمی سربراہ، آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہو جائیں اور پھر پاکستان دنیا بھر میں سود پر قرض دینے والے اداروں کے دروازوں پر دستک دے کہ دیکھو! اب تو تمہارے سرپرست آئی ایم ایف نے ہمارے سر پر ہاتھ رکھ دیا ہے، اس لئے اب تم ہمیں بے خوف ہو کر سود پر قرض دے سکتے ہو۔ ایسا کرتے ہوئے ان تمام علمائے کرام کے دل پر کیا گزرتی ہو گی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کا نہ صرف ہراول دستہ ہیں بلکہ ان میں سے ایسے بھی ہیں جو مسلسل بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں وزارتِ خزانہ پر متمکن رہے ہیں۔ یعنی باقی تمام وزارتیں تو اس سودی نظام میں ایک عامی سپاہی کے طور پر پیچھے والی صفوں میں شریک ہوتی ہیں، لیکن وزارتِ خزانہ تو قلبِ لشکر میں بغاوت کا علم تھامے ہوئے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کی قیادت کر رہی ہوتی ہے۔ یہ سب باتیں ایک عام آدمی کے لئے دقیانوسی، بے کار اور پسماندہ ذہنیت کی علامت ہیں۔ جدید سیکولر، لبرل اور سادہ مسلمانوں جیسے سیاست دانوں کو بھی ایسی باتیں بُری لگتی ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی سیاست کی بقاء اسی سودی نظام سے وابستہ رہنے میں پوشیدہ ہے۔ جدید مغربی تعلیم کی کوکھ سے جنم لینے والی آدم سمتھ اور کینز کی معاشیات (Economic) کا علم جن لوگوں نے ازبر کیا ہے، وہ بیشک اپنی نمازوں میں سورہ بقرہ کی 279 ویں آیت پڑھتے ہوں، جس میں سود کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ قرار دیا ہے اور اس کے بعد خشوع و خضوع کے ساتھ سجدہ ریز بھی ہوتے ہوں، مگر وہ کسی طور پر بھی یہ تصور نہیں کر پاتے کہ اس عالمی سودی نظام سے علیحدہ رہ کر اس دنیا میں زندگی کیسے گزاری جا سکتی ہے۔ وہ ان آیات کو ان کے معانی، مطالب اور مفہوم سمجھے بغیر ادا کرتے چلے جاتے ہیں اور خود کو اس عالمی سودی مالیاتی نظام کے سپرد کر دیتے ہیں۔ ان لوگوں سے کیا گِلہ کہ جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ سود کے خلاف دُھواں دار تقریر کرنے والے اور منبر و محراب سے اس کے خلاف آواز بلند کرنے والے علمائے کرام کہ جن کی کسی قسم کی بھی ایسی کوئی معاشی مجبوری نہیں ہوتی کہ انہیں رزق کے حصول کے لئے ’’وزارت‘‘ اور صرف ’’وزارت‘‘ ہی چاہئے ہو، وہ بھی ایسی کہ وہ جوق در جوق اور کشاں کشاں خاص طور پر وزارتِ خزانہ کی دلکش کرسی پر براجمان ہو جائیں، تو ایسے میں عام آدمی یقیناً اس غلط فہمی کا ضرور شکار ہوتا ہے کہ سود کے خلاف جنگ دین میں کوئی ایسا بڑا مسئلہ ہی نہیں ہے، جس پر جذباتی ہو کر اسے دین و ایمان کا معیار بنا لیا جائے۔ عام آدمی یہ تاثر لیتا ہے کہ یہ تو محض ایک علمی بحث ہے، جو ہمارے علمائے کرام صدیوں سے فقہ کی کتابوں میں کرتے چلے آئے ہیں۔ قول و فعل کے اسی تضاد کی وجہ سے آج تک ایک عام آدمی کے سامنے سود، سودی نظام اور اللہ کی طرف سے دی جانے والی وعید کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے علمائے کرام فحاشی و عریانی اور رقص و سرود کے خلاف مسلسل تقریریں کریں، مگر ہر مدرسے اور مسجد کے اخراجات پورے کرنے کے لئے انتظامی کمیٹی اس بات کی اجازت دے کہ شہر میں ایک سینما خرید کر چلایا جائے اور اس کی ’’حلال‘‘ آمدنی سے مدرسے یا مسجد کا انتظام کیا جائے یا پھر حکومت سے شراب خانے کا لائسنس لے کر اس کی آمدن سے علماء کے وظائف اور تنخواہیں ادا کی جائیں۔ پاکستان ہی نہیں تمام مسلمان ممالک کی اجتماعی زندگی میں سود رچا بسا ہوا ہے اور اس کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی کرتے ہوئے خبردار بھی کیا تھا کہ ’’لوگوں پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا جب ہر کوئی سود کھانے والا ہو گا، اگر سود نہ کھائے تو اس کا غبار اسے ضرور پہنچ کر رہے گا ‘‘ (نسائی، کتاب البیوع)۔ ہم جو کاروبار کرتے ہیں، اس میں تقریباً ہر جنس پر بالواسطہ یا بلا واسطہ سود موجود ہے، سرکاری نوکری کریں یا پرائیویٹ ملازمت، سود کا غبار ہمارے حلق سے ضرور اُترے گا۔ سرکاری نوکری میں بھی تنخواہ اس بجٹ سے دی جاتی ہے جس میں مقامی بینکوں اور عالمی مالیاتی اداروں سے سود پر لیا گیا قرض شامل ہوتا ہے جبکہ اکثر پرائیویٹ اداروں میں بھی سرمایہ کاری کے لئے پیسہ سود پر ہی لیا گیا ہوتا ہے۔ ایسے ماحول میں نوکری کرنے والا براہِ راست مجرم نہیں بنتا، کیونکہ اس نے تو اپنا ’’محنتانہ‘‘ وصول کرنا ہوتا ہے۔ اس کی ایمانداری سے حاصل ہونے والی ’’حلال‘‘ کمائی میں اگر اس کا مالک سود کی ملاوٹ کرتا ہے تو اس میں محنت کرنے والا ہرگز قصور وار نہیں کیونکہ مالک یا حکومت کو روکنا اس کے بس میں نہیں ہے۔ یہ کام اس کی استطاعت سے باہر ہے اور اللہ نے فرمایا ہے، ’’اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جہاں تک تمہاری استطاعت ہے‘‘ (التغابن:18)۔ لیکن کسی ایسی حکومت کا جان بوجھ کر حصہ بننا، جو سودی نظام کی پروردہ ہو اور جس کی معیشت کی ساری اساس عالمی مالیاتی سودی نظام پر ہو، یہ ایک اختیاری عمل ہے اور ایسا کرنا جان بوجھ کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ میں شریک ہونے کے مترادف ہے۔ اس معاملے میں علمائے کرام اور عام سیاسی پارٹیوں میں وہی تفریق لازم ہے جو ایک عام آدمی کی اسلامی معاشی معاملات کی سمجھ بوجھ اور ایک عالم دین کی سمجھ بوجھ میں کی جاتی ہے۔ جیسے ایک عام آدمی اپنے علمائے کرام کو سودی نظام میں اہم ذمہ داریاں لیتے ہوئے دیکھ کر خود کو تسلی دے لیتا ہے کہ یہ سب کچھ شاید اتنا خوفناک نہیں ہے جتنا منبر و محراب سے بتایا جاتا ہے۔ اسی طرح تمام دیگر جمہوری سیاسی پارٹیاں بھی اس جرم میں ان علمائے کرام کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ تصور ہی نہیں کر پاتیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ اگر یہ واقعی جنگ ہوتی تو دین کا علم رکھنے والے اتنے سارے علماء ہمارے شانہ بشانہ اس نظام کا ہراول دستہ نہ بنتے۔ لیکن یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ یہ علماء عالمی مالیاتی سودی نظام کے شریکِ کار کے طور پر وزارتِ خزانہ کی کرسی پر متمکن ہونے سے بھی نہیں جھجکتے۔ ہمارے سیاسی علماء کا یہ وہ عمل ہے جو پاکستان کی ہر سیکولر، لبرل، جمہوری سیاسی پارٹی کے لئے سودی نظام کے دفاع کے لئے جواز فراہم کرتا ہے۔ حافظ نے خوب کہا تھا: چوں کفر از کعبہ بر خیزد کجا ماند مسلمانی (جب کفر کعبے سے نکلنے لگے تو بیچارہ مسلمان کہاں جائے)۔