خاندانی دشمنی میں ایک دوسرے کا قتل ہمارے سماج کا ایسا مسئلہ بن چکا ہے جس میں ہر سال درجنوں افراد موت کے گھاٹ اتار دیئے جاتے ہیں۔ اتوار کے روز لاہور کی ایک مشہور کاروباری شخصیت جسے 2010ء میں قتل کر دیا گیا تھا، کے بیٹے کو بھی شادی کی تقریب کے دوران کیمرہ مین کا روپ دھارے شخص نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ لاہور تہذیب و تمدن کا گہوارہ ہے لیکن اس کا دامن خاندانی دشمنیوں کی وجہ سے ہونے والی قتل و غارت سے کئی بار داغدار ہوچکا ہے۔ لاہور ہی کیا، پنجاب اور دیگر صوبوں کے کئی شہروں میں ایسی دشمنیاں نسل در نسل چلی آ رہی ہیں اور لاتعداد افراد جن میں بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں، اس دیوانگی، دہشت اور بربریت کی نذر ہو چکے ہیں۔ ایسے واقعات کے تسلسل سے بعض اوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم زمانہ جاہلیت میں رہ رہے ہیں۔ اسلام سے قبل اہل عرب ایسی ہی قتل و غارت میں ڈوبے ہوئے تھے، اسلام امن کا پیغام لے کر آیااور انہیںصدیوں سے جاری جنگ و جدل سے نجات دلا کر بھائی بھائی بنادیا، آج ہمیں بھی ایسی ہی کوششوں کی ضرورت ہے۔ آج تمام تنازعات پولیس اور عدالتوںکے ذریعے حل کیے جاتے ہیں۔ معاشرے سے ایسی بھیانک روایات کے خاتمے کے لئے سماجی کوششوں کے علاوہ سرکاری سطح پر ایسے اداروں کا قیام عمل میں لانا چاہئے اور پولیس کی ایسی خصوصی تربیت کی جانی چاہئے کہ لوگوں کے تنازعات خاندانی دشمنی میں تبدیل ہونے سے پہلے حل کر دیے جائیں۔