توہین عدالت CONTEMPT OF COURT)) تو ایک قانونی د اعیہ کے طور پر دنیا کے بیشتر ممالک بشمول پاکستان میں موجود اور فعال رہا ہے ۔تاہم اب پاکستان میں پارلیمنٹ نے اپنے وقار اور احترام کے تحفظ کے لئے توہین پارلیمنٹ کا بل پاس کیا ہے ۔اس بل کے نتائج اور اثرات تو وقت کے ساتھ ہی ظاہر ہونگے تاہم اس کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی اور اسے کسی قدر عجلت میں کیوں منظور کیا گیا اور یہ کس حد تک اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب رہے گا۔اس بات کا جائز ہ لیا جانا ہمارے پیش نظر ہے ۔ یہ بات تو اب کوئی راز نہیں رہی کہ موجودہ سیاسی بحران جسے شروع ہوئے ایک سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے اب ان قوتوں کی دسترس میں بھی نہیں رہا جو اس کے شروع کرنے کہ ذمہ دار تھیں۔ ہر گزرتے لمحے بے قابو ہوتے سیاسی حالات اورمعاشی بگاڑ کی ابتر ہوتی صورت حال کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ اب ہر ادارہ اپنا اعتبار اور وقار کھو چکا ہے۔پارلیمنٹ اور عدلیہ سب اپنی طاقت کے اظہار کے جواز کے لئے آئین کے صفحات ڈھونڈ نے میں مصروف ہیں۔ آئین ، جس نے ریاست کے شہریوں کو وفاقی اسلامی جمہوریہ کے قیام اور استحکام کی ضمانت دی تھی ، اس پر عمل کے لئے کوئی ادارہ بھی نیک نیتی کے ساتھ تیار نہیں ۔ موجودہ سیاسی ، آئینی اور اداراتی بحران میں یہ بات ہر ایک کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی ادارہ پوری ریاست نہیں ہے کہ وہ محض اپنے وقار اور تحفظ کو پیش نظر رکھے ۔ ہر ادرے کا اپنا دائرہ کار ہے ہر ادارہ محترم ہے جب تک یہ اصول اداروں اور سیاسی اور ریاستی مناصب کے مابین نافذالعمل رہے گا کسی ٹکرائو یا کسی تنازع کا پیدا ہونا سہل نہیں ۔موجودہ اداراتی ٹکرائو کی یہ کیفیت اس بنیادی اصول سے انحراف کے باعث ہی پیدا ہوئی ہے۔ عدلیہ ہو یا پارلیمنٹ ہر دو اداروں کا وقار ان کی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کارکردگی کے اظہار میں ہے ۔ کارکردگی کے بغیر اداراتی وقارکی تما م خو اہشیں نا تمام رہینگی۔عدالتوں کی ناموس ان کے قانونی تقاضوں کے عین مطابق غیر جانبدارانہ اورشفاف فیصلوں سے ہی ممکن ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ججز نہیں بولتے ان کے فیصلے بولتے ہیں ۔عدالتی فیصلے ہی ججز کا تاریخ میں مقام و احترام متعین کرتے ہیں۔ججز کا وقار ،ان کا دبدبہ اور طاقت ان کے فیصلوں پر استوار ہے۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں بیشتر ایسے فیصلے واضح طور پر موجود ہیں جب عدلیہ کے بعض فیصلوں پر اس کا وقار متاثر ہوا۔( جسٹس منیر کا فیصلہ اس ضمن میں ایک بنیادی اور اولین حوالہ ہے) بعینہ پارلیمنٹ کا وقار اور اس کی بالادستی کا تصو ر بھی ا س کی اپنی کارکردگی سے ہی قائم ہوتا ہے ، یہ محض کسی قرارداد اور بل کی منظوری سے ممکن نہیں ۔ گزشتہ دنوں قومی اسمبلی نے توہین پارلیمنٹ بل منظور کیا ہے ۔بل کی تفصیلات کے مطابق ایوان یا ایوان کی کسی بھی کمیٹی کے احکامات یا ہدایات کی خلاف ورزی پارلیمنٹ کی توہین متصور ہو گی جسے قابل سزا بنایا گیا ہے اسی کے ساتھ ساتھ کسی بھی رکن یا ایوان کی کمیٹی کے استحقاق کے مجروح کئے جانے پر بھی اس کا اطلاق ہوگا۔توہین کے تعین اور سزائو ں کے فیصلے کا طریقہ ء کار بھی اس بل میں تجویز کیا گیا ہے۔بل کے مندرجات ، اس کے مقاصد اور اثرات پر تو بحث ہوتی رہے گی مگر کیا پارلیمنٹ نے اس بات پر بھی کبھی غور کیا کہ ارکان کی ایوان میں موجودگی ، ان کی کارکردگی،کارروائی میں دلچسپی کس قدر ہے ؟ کیا اس بات پر بھی پارلیمنٹ کبھی غور کرنے کیلئے تیار ہو گی کہ جو فرائض آئین نے انہیں تفویض کئے ہیںوہ کس حد تک پورے کئے گئے ،عوامی نمائندگی کے حقوق ایوان کے اراکین نے دیانت داری سے پورے کئے بھی یا یونہی حاضریاں لگتی رہیں اور مراعات وصول کی جاتی رہیں۔جمہوری اقدار ،سیاسی وقار ،تحمل ،برداشت اور رواداری کے فروغ میں اراکین پارلیمنٹ کا کیا کردار رہا ہے؟ اگر تو پارلیمنٹ اور اس کے معزز اراکین یہ مطلوبہ سیاسی اور آئینی کردار ادا کرتے رہے ہیں تب تو توہین پارلیمنٹ کا یہ بل اپنا جواز رکھتا ہے وگرنہ یہ کوشش اور اس طرح کی تمام کوششیں نقش بر آب ہی رہینگی ۔ اداروں کا احترام اور وقار ایک مشروط داعیہ ہے یہ ہر گز غیر مشروط نہیں جب تک ادارے آئین کے تقاضوں اور حدود کار کے مطابق خود کو پابند نہیں کرینگے تب تک انہیں یہ احترام حاصل نہیں ہو سکے گا ۔ اتنی سادہ سی بات کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں میں اتنا تذبذب کیوں ہے ؟ یہ بات تو طے ہے کہ ریاستی نظام اور اس کے ادارے آئین سے ماورا نہیں ہیں۔ آئین کے اتباع میں ہی اداروں کا وقار اور احترام موجود ہے۔ جسے اس وقت ملحوظ خاطر نہیں رکھا جارہا جس کے نتیجے میںسیاسی اور آئینی تصادم کی فضاپیدا ہو چکی ہے ۔ آئینی تقاضوں سے انحراف کے باعث ہی حکومت ،انتظامیہ اور دیگر ادارے اپنا وقار کھو چکے ہیں ۔ سیاسی قیادت کی جانب سے بر وقت اور درست فیصلوںکے اجتناب سے بحران کی شدت اور حدت میں جو اضافہ ہوا ہے اسے حالیہ احتجاج میںمحسوس کیا جاسکتا ہے۔نو مئی کے جو مناظر لاہور ، پشاور،اور دیگر شہروں میں دیکھے گئے انہیں یقینی طور پر انتباہیALARMING) ) سمجھا جانا چاہیئے۔ احتجاج کی اس خوفناک صوت حال کو ہر سطح پر محسوس کیا جانا چاہیئے۔ یہ احتجاج سیاسی کارکنوں کی جانب سے کیا گیا یا ملک دشمن عناصر نے موقع سے فائدہ اٹھا کر اسے اس حد تک پہنچایا ہر دو عناصر کی فعالیت ریاست اور اس کے اداروں کے لئے باعث تشویش ہونا چاہیئے ۔ سیاسی جماعتوں کو بھی اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی اختلافات کو دشمنی کی حد تک لے جانے میں کسی کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس سے گریز اب وقت کی اہم ضرورت ہے۔ریاست کی بقا اوراس کے شہریوں کا تحفظ جمہوری سیاست کے تسلسل میں ہے مگر یہ بھی ضروری ہے کہ سیاسی قوتیں حالات کی سنگینی کو شدت سے محسوس کریں۔ اور جمہوری اقدار کا پاس کریں۔ وقت سازوں تیزی سے نکل رہا ہے مسائل اور مشکلات جو پہلے بھی کبھی کم نہیں تھیں اب بڑھ کر عفریت بن چکی ہیں۔ ان پر اب توجہ کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے کہ عوامی اضطراب سب کچھ بہا لے جائے !!