گزشتہ دنوں کچھ فراغت کے لمحات میسر آئے تو اپنی چھوٹی سی لائبریری کی دوران صفائی اچانک میرے سامنے امیر تیمور کی آپ بیتی آگئی ۔ اپنے آپ کوچنگیز خان کی نسل سے ملانے والا امیر تیمور ایک انتہائی وحشت انگیز شخصیت کا مالک تھا۔ اُس کی پوری زندگی میدان جنگ میں بسر ہوئی ۔سمر قند کے ایک چھوٹے سے گائوں کیش سے اُٹھنے والاتیمور قہری خدا وندی بن کر ٹوٹا اور اپنی زندگی کے ستر سالوں میں سے ۵۵سال جنگ وجدل میں گزار کر زندگی کے آخری سال دیوار چین پر پہنچ گیا۔ وہ چین پر حملہ کرنے کے لیے اپنی فوجوں کے ساتھ تیار کھڑا تھا کہ اسی دوران اچانک گھوڑے کی پیٹھ پر اُسے ’’سکتہ ‘‘طاری ہو گیا ۔ اسے واپس سمر قند لایا جا رہا تھا کہ راستے میں ہی اسکا انتقال ہو گیا اپنی وفات سے دو سال قبل امیر تیمور نے دنیا کے تمام بادشاہوں کو خط لکھ کر اپنے خوبصورت آبائی شہر کیش آنے کی دعو ت دی تھی جسے امیر تیمور نے دس سال کی مدت میں کئی خزانے خرچ کر کے تعمیر کرایا تھا۔ اُس کی یہ خواہش تھی کہ دنیا بھر سے بادشاہ اُس کے شہر کیش میں آکر اُس کے مہمان بنیں اور اُس کی تعمیر اور حسن کی داد دیں تمام بادشاہوں نے امیر تیمور کے اِس جشن میں شرکت کا وعدہ کیا لیکن شہنشاہ چین نے امیر تیمور کے سفیر کو خط لکھ کر دیا کہ اے امیر تیمور تو نے دنیا کے ایک بڑے بادشاہ کو اپنے ہاں بلانے کی جرأت کیسے کی ہے ۔تیری حیثیت میرے سامنے کیا ہے اپنے ہی مسلمانوں کے ملکوں کو لوٹ کر تم نے ایک چھوٹا سا شہر بنایا ہے اور پھر مجھ جیسے بڑے ملک کے بادشاہ کو بلانے کی جسارت کرتا ہے تیرے پورے خزانے میرے ایک شہر کے خزانے کے برابر بھی نہیں۔ ‘‘ یہ خط پڑھ کر امیر تیمور غصے سے کانپ اُٹھا اور اپنے لشکر کو چین پر حملہ کرنے کے لیے روانہ ہو گیا ستر سالا تیمور نے اپنی پوری زندگی میں صرف ا یک ہی غیر مسلم ملک چین سے پہلی مرتبہ جنگ کرنا شروع کی ہی تھی کہ قدرت نے اُسے یہ توفیق نہ دی اور اُس کی زندگی کی سانسیں ہی ٹوٹ گئیں۔ رحم اُس کی زندگی میں کبھی بھی نہ آیا اُسے صرف خزانے جمع کرنے اور لوگوں کو قتل کرنے کا شوق تھا۔ تیمور کا لفظ تیمر سے نکلا ہے جس کے معنی ’’لرزہ ‘‘ کے ہیں۔ تیمور اگر ایک طرف حافظ قرآن اور عالم دین تھا تو دوسری طرف اُسے مکمل جنگجو انسان بھی تھا امیر تیمور بے انتہا طاقت ور انسان تھا۔ دوران جنگ وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے لڑا کرتا تھا بلکہ اُلٹے ہاتھ سے وہ زیادہ کام لیا کرتا تھا دائیں ہاتھ میں تلوار اور بائیں ہاتھ کلہاڑے کو وہ اپنے دشمنوں پر ٹوٹ پڑتا اور پھر اُنہیں شکست دے کر ہی پیچھے ہٹا کرتا تھا ایک جنگ میں اُس کی بائیں ٹانگ شدید زخمی ہو گئی تھی جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ کے لیے لنگڑا ہو گیا جس کی وجہ سے اُسے تیمور لنگ کے نام سے پکارا جایا کرتا تھا لیکن لنگڑے ہونے کے باوجود اُس کی ہمت اور قوت میں کوئی کمی نہ آئی ایران کے شہر سبز وار کو فتح کرنے کے بعد اُس نے وہاں کے امیر سیف الدین کے ساتھ مذاکرات کیے اور سبزوار کے امیر سے پانچ لاکھ مثقال سونا طلب کیا جب امیر سبز وار سے امیر تیمور کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی تو اُس نے سبزوار پر حملہ کر کے تمام شہر کو قبرستان میں تبدیل کر دیا اور اِس میدان جنگ میں امیر تیمورنے اپنے معماروں کو طلب کر کے مرنے والون کی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کرائے تھے امیر تیمور کی زندگی بھی عجیب تضاد کا شکار رہی ایک طرف اتنی زیادہ تعداد میں قتل عام کرایا کہ لاکھوں لوگ جان کی بازی ہار گئے اور پھر دوسری طرف علما ء ، شعرا اور معماروں کا بڑا قدر دان تھا ۔ امیر تیمور کو اُس کے شاہی حکیم نے جسم میںگرمی کی وجہ سے فارس کے لیموں استعمال کرنے کا مشورہ دیا جس پر امیر تیمور نے سلطان منصور مظفری کو خط لکھ کر لیموں بھیجنے کا کہا تھاکہ لیکن سلطان منصور مظفری نے امیر تیمور کے خط کے جواب میں لکھا کہ اے امیر تیمور ’’میرا دربار سبزی فروش کی دکان نہیں ہے جو تو مجھ سے لیموں مانگ رہا ہے میں عطار ہوں نہ شربت فروش بلکہ فارس کا بادشاہ ہوں ۔تجھے چنگیز خان کی نسل کا تکبر ہے تو یاد رکھ تیرا جد امجد چنگیز خا ن بھی فار س پر حملہ کرنے کی جرات نہ کر سکا تیری کیا اوقات ہے ‘‘ یہی خط سلطان فارس منصور مظفری کی تباہی کا سبب بن گیا اورپھر امیر تیمور نے سلطان منصور مظفر کو چار ماہ کے اندر حملہ کر کے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا یہاں تک میدان جنگ سے فرار ہو جانے والے اُس کے دونوں بیٹوں کو بھی گرفتار کرا کے اُن کی گردنیں اُڑ دی تھیں اِسی جنگ کے بعد جب امیر تیمور نے شیراز کا رُخ کیا تو شیراز فتح کرنے کے بعد اُس نے فارسی ادب کے مشہور شاعر حافظ شیراز سے ملاقات کرنے کی خواہش کی حافظ شمس الدین شیرازی کو جب امیر تیمور کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ خود لکھتا ہے کہ ایک بوڑھے کم خمیدہ شخص کو میرے سامنے لایا گیا تو اُس کی ایک آنکھ سے پانی بہہ رہا تھا ’’میں نے پوچھا شمس الدین تم ہی ہو ‘‘ تو بوڑھے نے جواب دیا جی ہاں امیر میں ہی ہوں تو مجھے اُس کا یہ شعر پڑھ کر بڑا غصہ آیا : اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دل مارا بخال ہندو ش بخشم سمر قند و بخارارا تو میں نے کہا کہ اے حافظ میں ہزاروں جانوں کی قربانی دے کر سمر قند اور بخارا حاصل کروں اور تو اُسے اپنے محبوب کے ایک سیاہ تل پر قربان کر دے تو حافظ نے اپنا گریبان چاک کیا اور کہا کہ اے امیر اپنی اِس خیالی بخشش ہی نے تو مجھے اس مقام پر پہنچایا اِس جواب پرا میر تیمور ہنس پڑا اور ایک ہزار سونے کے سکے حافظ شیراز کو رخصت کیا۔