اتنی طویل اور پر مشقت جدوجہد پاکستانی تاریخ میں کسی رہنما کو درپیش نہیں تھی۔ لوگ آئے، طویل سفر کی مسافت کے بعد تھک ہار کے لوٹ گئے : منزل عشق پہ تنہا پہنچے کوئی تمنا ساتھ نہ تھی تھک تھک کے اس راہ میں آخر اک اک ساتھی چھوٹ گیا ہاں تھوڑے ہی تھے جو پُر امید اور ثابت قدم رہے۔ مگر جو امتحان اب پیش آیا ہے اتنا کڑا وقت کسی پر نہیں گزرا۔ کبھی نہیں گزرا۔ حضرت حسین ؓ کی مثال تو بے مثال ہے اور کربلا کے ہم سفر جانثاروں کی بھی، وہ تو رہتی دنیا تک مینارہ نور ہیں، جس کی روشنی میں ہر زمانے کے لوگ ایثار و عظمت کا سبق لیا کریں گے، اسی روشنی سے شہادت گاہ الفت کی راہ لیتے ہیں۔اسی نور کے راستے کے مسافروں میں ایک ٹیپو بھی تھے۔جسے دنیا سلطان ٹیپو کے نام سے جانتی ہے، تاریخ کا روشن باب جو مقدس خون کی روشنائی سے لکھا گیا۔سلطان کا ایک وزیر اور سپہ سالار تھا۔میر صادق‘ میر سید کو کہتے تھے۔ میر صادق‘ میر جعفر ان کی تکریم کی جاتی۔عزت سے سر پر بٹھائے گئے مگر وہ حضرت حمزہ ؓ کی راہ چھوڑ کر ابولہب کے ہو لئے‘ قرآن کریم میں ارشاد ہے’ ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ گئے، تو اس کی پیروی کرنے والوں کے کیا بچ گئے ہونگے؟ٹیپو سلطان نہ رہے‘ میر صادق بھی گئے ۔آسمانوں میں ان کا مقام و مرتبہ وقت آنے پر ہم‘ تم بھی دیکھیں گے، ایک تاریخ کی گواہی بھی ہے‘ زبان خلق بھی‘ زبان خلق جسے نقارۂ خدا کہتے ہیں۔ یعنی اللہ کی طرف سے کیا گیا اعلان عام۔دولت اور اقتدار کا لالچ کتنوں کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک گیا۔ دور کیوں جائیے ہمارے سامنے گزر رہی ہے‘ ہم کھلی آنکھوں بالکل سامنے دیکھتے ہیں‘ ایک میاں محمد نواز شریف بھی تھے‘ تھے کیا اب بھی ہیں ‘ تین بار کے وزیر اعظم شاید آج کی دنیا میں سب سے بڑی رہائش گاہ یا محل پاکستان کے شہر لاہور میں ہے۔ملکہ برطانیہ کے محلات سے بھی وسیع تر۔بھائی ان کے وزیر اعظم ہوتے ہیں‘ بھتیجا اسی صوبے کا حکمران تھا لیکن تین بار کا وزیر اعظم اپنے ہی گھر لوٹ آنے کی ہمت نہیں رکھتا۔برطانیہ کے شہر لندن میں بہت ہی مہنگی اور بیش قیمت رہائش گاہیں ان کی ملکیت ہیں‘ ان گھروں کے باہر ہر وقت سینکڑوں اور بھلے دنوں میں ہزاروں تارکین وطن اور بعض مقامی انگریز لعنت و ملامت کے آوازے کستے ہیں۔کیا دولت و اقتدار کا یہی حاصل ہے؟ موصوف وزیر اعظم ہوا کرتے تھے تب انہوں نے ایک سپہ سالار مقرر کیا، تین برس کے لئے اسی عہد میں بدعنوانی کے الزامات میں اقتدار سے محروم ہو کر قید میں ڈال دیے گئے‘ احسان مند سپہ سالار کی مدد سے بھاگ نکلے اور لندن میں پناہ گزین ہوئے‘ اگلے تین برس کے لئے مفرور کی مدد سے مدت ملازمت میں توسیع ملی اس شرط پر کہ جہاں سے بھاگے تھے وہاں واپس لے جائے جائیں‘ پھر سے اقتدار میں آئے تو مزید تین برس‘ کل ملا کر کتنے ہوئے؟ پورے نو(9) سال‘ 9سال ہاتھ نہ آئے آج وہ بھی دربدر ہیں: آ عندلیب مل کے کریں آہ وزاریاں تو ہائے گل پکار ‘ میںچلائوں ہائے دل جب تک دنیا میں لالچی ہیں تب تک جھوٹے عیش میں رہیں گے’9برس کی سپہ سالاری میں بڑی کشش ہے۔9سال میں وہ مرحلے بار بار آئیں گے جو کبھی ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی زندگی میں آئے تھے۔جب پورا اقتدار اور اختیار بھی مل سکتا ہے‘ ایک دو نہیں پورے دس سال۔9کے ساتھ دس ملائے تو پورے انیس (19) برس ہو گئے ۔کیا 19برس کا خواب صرف ریٹائرڈ چندا ماموں کا تھا۔لالچ میں اندھے کو ہرا ہی ہرا سوجھتا ہے۔9سال کے سراب اس کے بعد دس کا مزید گمان کتنا خوش کن خیال ہے۔یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جان کی پرواہ کون کرے۔ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘مرنے کے بعد کیا ہو گا؟ اس کی فکر یقین والوں کو ہے۔خیال اور گمان میں جینے والوں کے لئے شاید آج ہی سب کچھ ہے کل کی فکر کون کرے؟ خواہ مخواہ کا جھنجٹ! جنگ ہنڈولے(جھولے) کی طرح ہے‘کبھی ایک پلڑا جھکتا ہے کبھی دوسری طرف۔ میدان اسی کے ہاتھ رہتا ہے جو سچائی کے ساتھ صبر کرے اور ثابت قدم رہے۔خوف وحشت اور لالچ میں کئے گئے فیصلے بارآور نہیں ہوتے۔پاکستان میں سیاسی کشمکش کھلی جنگ میں بدل چکی ہے۔جنگ دوطرفہ نہیں یک طرفہ چھیڑی گئی ہے۔ جائز آئینی‘ قانونی اور اخلاقی مطالبات کے مقابلے میں دھونس، دھمکی، قید و بند اور قاتلانہ حملے۔عدم تشدد کا مقابلہ گولی اور بارود کے ساتھ ہو تو عدم تشدد کب تک تشدد سہہ سکے گا؟ ایک فریق عمران خاں ہے۔ اس کی تحریک انصاف کوپاکستان کے عوام میں تقریباً 80فیصد کی حمایت حاصل ہے ۔اس کے مقابلے میں دوسرا فریق کون ہے؟ کیا کوئی بھی پاکستانی واضح طور پر اس کی نشاندہی کر سکتا ہے؟ خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں۔ جو چلمن سے لگے بیٹھے ہیں بے چہرہ بے نام‘ ان کا کوئی نام نہیں‘ جن کا نام ہے وہ فرنٹ مین کہلائے جاتے ہیں ۔ عمران خاں ہی سب سے بڑا اور نمایاں فریق (سٹیک ہولڈر) ہے ۔وہ سگی اور حقیقی ماں کی طرح بچے کو دو حصوں میں بانٹ نہیں سکتا ۔جس طرح 1971ء میں جعل ساز مائوں نے پاکستان کو حصوں میں بانٹ دیا تھا۔ ’’پاکستان نامی‘‘ محمد علی جناح کا بیٹا دو حصوں میں کاٹ دیا گیا‘ کٹنے والا بیٹا فقط لاش تھا جو حصوں میں بٹ گیا۔ کچھ قوتیں سیاسی استحکام کی دشمن ہیں۔ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معاشی بحران نے زور پکڑا ہے‘ معاشی بحران سب سے پہلے قوم کے دفاعی حصار میں دراڑ ڈالتا ہے‘ تب بیرونی دشمن اور اندرون ملک سماج دشمن جھپٹ پڑتے ہیں‘ پاکستان قیام کے پہلے دن سے بڑے بڑے دشمنوں کے مقابل کھڑا ہے‘ اسے کمزور کر کے دشمن کے لئے نرم چارا بنایا جا رہا ہے۔ عمران خاں پاکستان کے استحکام اور پاکستانیوں کے اتحاد و یکجہتی کی علامت بن گیا ہے۔اب تک صرف افواج پاکستان ہی اتحاد و استحکام کی علامت ہوا کرتی تھیں‘ سیاسی جماعتوں کا کوئی نمایاں کردار نہیں تھا بلکہ انہوں نے قومی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کا کام انجام دیا۔قوم نے بھی اپنے محافظوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا۔ بڑھ کے قدم لئے‘ فوج اور عمران خاں کے اتحاد نے دشمنوں کو بے حال کر دیا تھا، خصوصاً مئی 2019ء کے واقعات نے جب آن واحد میں حملہ آور دشمن کو دھول چٹا دی گئی۔وہ شکست خوردہ چین سے بیٹھے نہیں رہ سکتے تھے، سامنے آ کر مقابلہ کرنے کی بجائے چھپ کے وار کرنا انہیں خوب آتا ہے۔1965ء میں بدترین شکست کے بعد بھی انہوں نے چھپ کے وار کیا اور 1971ء کا سانحہ پیش آیا۔ وہی کچھ پھر سے دہرایا جا رہا ہے۔عمران خاں کی مخاصمت مسئلے کا حل نہیں، اسے راہ سے ہٹایا نہیں جا سکے گا۔ قوم کا وقت‘ توانائیاں اور وسائل جو آئے روز کم سے کم تر ہوتے جا رہے ہیں کم پڑتے وسائل کو عمران خاں کے خلاف جھونک دیا گیا ہے۔ شاید وہ بہت دنوں تک انتظار کر سکتا ہے، اس کے پاس وقت ہے لیکن پاکستان کے پاس وقت کم ہوتا جا رہا ہے۔ مخالف گروہ کی مدت اور مہلت محدود ہے‘ کتنی ؟ زیادہ سے زیادہ برس دو برس پھر کیا ہو گا؟ ہم ایک خونخوار عفریت کو اپنی قوم کی طرف بڑھتے ہوئے کھلی آنکھوں دیکھ رہے ہیں۔ہمیں سامنے دکھائی دیتے خطرے سے خوف آتا ہے‘ کچھ وہم اور بدگمانی کے مارے نادیدہ خطرے سے ڈرے بیٹھے ہیں ۔خوف انہیں بے ہدف تشدد پر ابھارتا ہے‘ تشدد کے بعد جوابی تشدد میں وہ اپنے لئے مواقع کی تلاش میں ہیں: منحصر مرنے پہ ہو جن کی امید نا امیدی اس کی دیکھا چاہیے