دنیا میں 76 سال میں کیا کچھ ہو گیا ہمارے ہاں کتنی انویسٹمنٹ آئی اور ہم نے کتنی کی۔ ہم کیا کچھ حاصل کر سکتے تھے اور ہم نے کیا کچھ کھو دیا۔ قوموں کے پاس حساب کتاب ہوتا ہے آپ چائنہ سے پوچھیں جب ہم آزاد ہوئے وہ کہاں کھڑے تھے اور آج کے دن تک وہ کیا کچھ حاصل کر سکے وہ بالکل بتائیں گے بلکہ دکھائیں گے بھی۔ آپ دبئی چلے جائیں وہ آپ کو بتائیں گے کہ یہاں ہر طرف ریت ہی ریت ہوتی تھی اور ہمارے پاس اونٹوں اور کھجوروں کے سوا کیا تھا مگر ہم نے یہ سب کچھ کیسے حاصل کیا آپ جاپان چلے جائیں وہ آپ کو بتائیں گے ہم راکھ سے سونا کیسے بنے۔ غرض آپ کہیں بھی چلے جائیں آپ کو سوال پوچھنا نہیں پڑے گا بلکہ نظر آئے گا چودہ اگست انیس سو سینتالیس کو حضرت قائد اعظم کیا چاہتے تھے ان کے نزدیک یہاں کیا کچھ ہوسکتا تھا وہ جانتے تھے کہ یہ ایک زرعی ملک ہے اور اسی تناظر میں انڈسٹریل بھی ہوگا۔ پوری دنیا میں اس وقت یہ سب سے اہم بات تھی یعنی ان دونوں شعبوں پر توجہ دینی چاہیے تھی توجہ کیوں نہیں دی گئی کون سی رکاوٹیں حائل تھیں اور ہم نے ان کا کیا ادراک کیا اور بعد میں تدارک۔ یہ بات درست ہے کہ ہجرت کی وجہ سے ہم کئی سال تک سنبھل نہ سکے۔ انڈیا یہ بات تسلیم کر چکا تھا کہ برٹش بیوروکریسی ان کے ہاں ملازمت کرے گی اور ساتھ ساتھ ان کی بیوروکریسی بھی تیار کرے گی۔ قائد اعظم کو بھی یہ تجویز دی گئی تھی بظاہر آپ کو پسند تھی مگر چونکہ آپ مشاورت کے قائل تھے بدقسمتی سے اس کی بھر پور مخالفت کی گئی اور آپ فیصلہ نہ کر سکے نتیجہ یہ نکلا کہ بیوروکریسی کی کمی کا سامنا کرنا پڑا اور نتیجاً چھوٹے آفیسرز کو بڑے عہدوں پر اضافی چارج دینا پڑا۔ تقسیم کے فوراً بعد کلیم کی الاٹمنٹ کا بحران پیدا ہوگیا عام آدمی جو سب کچھ چھوڑ کر ہجرت کر کے آیا تھا لمبی لمبی لائنوں میں ہاتھوں میں کلیم کے کاغزات لیے کھڑا رہتا۔ اسے روزی روٹی کا بھی کچھ کرنا پڑتا تھا مگر دوسری طرف بڑے لوگ موجودہ اشرافیہ اسی بیوروکریسی کے پاس بغیر کسی رکاوٹ کے چلے جاتے اور اپنی مرضی کی الاٹمنٹ کروا لاتے ۔ یہ بھی ایک کرب تھا۔ قائداعظم کو ایک آدمی اور اتنا بڑا ملک انہیں سنبھالنا پڑ رہا تھا ایک عجیب افراتفری تھی ہر طرف۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور تک ہم وہ کام کرتے رہے جو آزادی کے فوراً بعد کرنے چاہییں تھے۔ متفقہ آئین مل تو گیا مگر اس آئین کی اصل حالت باقی ہی نہ رہی۔ بدقسمتی سے انڈیا نے ہمارے وجود کو تسلیم ہی نہیں کیا ۔ دشمنی کی لکیر آج تک موجود ہے ہمارے پانی کی محتاجی انڈیا سے ہی منسوب ٹھہری جب اس کا دل کرتا ہے وافر پانی چھوڑ دیتا ہے یہاں سیلاب سے تباہ کاریاں شروع ہوجاتی ہیں ۔پھر دنیا میں سوویت انہدام کا وقت آیا ہم بری طرح استعمال ہوئے ساری دنیا خاموش بیٹھی تھی اور ہم اکیلے ہی اتنے بڑے جھگڑے کے باقاعدہ فریق تھے دنیا کی نظر میں ہم نے مشکوک ہونا ہی تھا۔ آج اسی روس سے ہم تیل لے رہے ہیں بلکہ تجارت کے بھی خواہاں ہیں۔ پھر اس کے بعد ہم فریق بنے ایک ایسا وقت بھی آیا تھا کہ پوری دنیا میں دو بڑے نام گونجتے تھے ایک واشنگٹن اور دوسرا اسلام آباد اور آج پھر وہیں کھڑے ہیں اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم دنیا میں الجھتے چلے گئے ہمارے ہاں نہ سیاسی استحکام آسکا اور نہ معاشی۔ پوری دنیا کے بڑے عہدیدار سرمایہ دار ایک دوسرے ممالک میں جاتے ہیں اور کاروبار کرتے ہیں ایک دوسرے کو کندھا دیتے ہیں کس نے غور کیا ہے گزشتہ نصف صدی سے ہمارے ہاں کون آیا یا سرمایہ لایا وزارت خارجہ سے پوچھ لیں ایسا کیوں ہوا کوئی بھی اس پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے رپورٹ دی گئی کہ ترقی یافتہ ممالک کے سفارت کار ہمارے بڑے سرمایہ کاری کرنے والوں پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں کہ وہ اپنا سب کچھ وہاں لے جائیں ہم تمام سہولتیں دیں گے کچھ بھی نہ ہوا یہی نواز شریف صاحب کو بتایا گیا مگر نتیجہ صفر بڑی تعداد میں سرمایہ دار سرمائے سمیت یہاں سے کوچ کرگئے حد تو یہ کہ ان کے ملازمین تک کو ویزے دیے گئے۔ ہم انڈسٹریل اسٹیٹ کیوں نہ بن سکے جو کچھ ہم نے بنایا تھا وہ بھی کیوں نہ قائم رکھ سکے مانچسٹر سے مجید پرویز ایک اسٹور پر گیا بنگلہ دیشی اور انڈین گارمنٹس دیکھیں تو سوال کیا پاکستان سے کیوں نہیں منگواتے تو اس نے کہا دو کنٹینر منگوائے تھے جب مال کھولا اوپر والا کچھ درمیان والا کچھ اور نیچے والا سب سے خراب مال تھا اب یہ اس نے ہر جگہ بتایا ہوگا بیچنے والے نے چند پیسوں کے عوض اپنے ملک کا وقار داؤ پر لگا دیا کورونا کے ایام میں صرف ہماری انڈسٹری چل رہی تھی بڑا ہی نایاب موقع تھا کہ ہم اپنے وقار بحال کرتے افسوس لگتا ہے کثیر تعداد نے ایسی ہی گھٹیا حرکتیں کی ہوںگی حکومت کیوں نہیں چیک کرتی ناقص مال کیسے وہاں چلا گیا اگر کوئی یہاں انویسٹمنٹ کا سوچے گا تو سچی بات ہے اسے کیا دیں گے ایک تو بجلی گیس اتنی مہنگی اوپر سے دستیاب بھی نہیں تو پھر کیسے کوئی آئے گا ہمیں اپنے ادارے درست کرنے ہوں گے جو بہت خوفناک حد تک تباہ ہو چکے ہیں کرپشن اقربا پروری ناقص حکمت عملی سیاسی مداخلت ناجائز بھرتیاں میرٹ کا فقدان۔ کونسا ایسا عیب ہے جو نہیں ہے حکومتیں آتی جاتی رہیں گی ادارے تو اپنا کام آزادی ایمانداری سے کریں کیا کبھی سنا ہے کہیں کہ نئی حکومت آتی ہے اور بیوروکریسی میں اکھاڑ بچھاڑ شروع ہو جاتی ہے تبادلوں کا ایک ریلا آجاتا ہے آخر کب تک ایسا چلتا رہے گا ہم نے اپنی بنیادیں خود تباہ کی ہیں۔ موافق حکومت کی عدم موجودگی میں کچھ بیورکریٹ گھر بیٹھ جاتے ہیں تنخواہیں مراعات لیتے رہتے ہیں یا بیرون ملک چلے جاتے ہیں جونہی جان پہچان والی حکومت آتی ہے پھر سے نوکری شروع ہوجاتی ہے۔ کیا کسی کو اندازہ ہے کہ قوم اب تک سولرپلیٹ بیٹری اور مصنوعی بجلی کے حصول میں اربوں ڈالر خرچ کر چکی ہے اس رقم سے کئی ڈیم بن سکتے تھے اس سے نہ صرف ہماری انرجی کی ضروریات پوری ہوتیں بلکہ ہم بیچ بھی سکتے تھے اگر ایسا ہوتا تو پھر مافیا کھربوں ڈالر کیسے کماتا ؟