یہی بہتر آپشن ہے ۔قومی اسمبلی سے دئیے گئے استعفوں کو واپس لیتے ہوئے وہ اسمبلی میں آکر اپنی سیاسی قوت کا اظہار کریں ۔استعفوں کے واپس لئے جانے کا یہ فیصلہ ان کے لئے کسی سبکی کا باعث بھی نہیں ہو گا کہ فیصلوں سے مراجعت کی ان کی اپنی ایک تاریخ ہے اور جسے وہ مستحسن بھی سمجھتے ہیں۔ عمران خان اس وقت پاکستان کے سیاسی منظر میں سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر ہیں ۔ ان کی سیاسی جماعت پنجاب ، خیبر پختون خواہ،آزاد کشمیر اورگلگت بلتستان میں حکمران جماعت کے طور پر موجود ہے۔اگر عمران خان صاحب قومی اسمبلی میں واپس آکر اپنا سیاسی سفر شروع کرتے ہیں تو اس میں نہ صرف انکا اور ان کی سیاسی جماعت کا فائدہ ہے بلکہ ملک وقوم بھی کسی تصادم کی آزمائش سے محفوظ ہو جائینگے۔اسمبلی میں جانے سے انہیں ایک اور فائدہ ملنے کا امکان بھی ہے اور وہ یہ کہ اس طرح ان کے سابقہ اتحادی پھر سے ان کے ساتھ اشتراک عمل پر آمادہ ہو جائیں اور وہ ایک بار پھر اسمبلی میں اپنی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ موہوم ہی سہی ایک امکان تو ہے۔اس سے بھی قطع نظر عمران خاں صاحب کا الیکشن کا مطالبہ اسی وقت قابل عمل ہو سکتا ہے جب اس کے لئے آئین میں موجود ضروری تقاٖے کو پورا کر لیا جائے ۔جیسے ایک غیر جانبدار الیکشن کمیشن کا قیام،( خان صاحب ویسے بھی موجودہ الیکشن کمیشن اور اس کے سربراہ کو غیر جانبدار نہیں سمجھتے۔) وفاقی اور صوبائی سطح پر نگراں حکومتوں کا قیام جس کے لئے وزیر اعظم قائد حزب اختلاف سے مشاورت کا پابند ہے ۔ اب اگر عمران خان صاحب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے طور پر موجود ہوں گے تو اس ضمن میں وہ قابل اطمینان نگران حکومتوں کے قیام کو ممکن بناسکتے ہیں وگرنہ تو قائد حزب ا ختلاف کے طور پر اسمبلی میں راجہ ریاض ہیں ! پھر یہ کہ الیکشن کے لئے نگراں حکومتوں کے لئے تین ماہ کا وقت ہو تا ہے۔اب اگر الیکشن کے لئے ان ضروری اقدامات کو رواں ماہ میں کر بھی لیا جاتا ہے تو بھی الیکشن آئندہ سال فروری تک ہی ممکن ہیں ۔موجودہ اتحادی حکومت کا زیادہ سے زیادہ دورانیہ آئندہ سال اگست تک ہی ہے۔الیکشن تو ہونا ہیں فروری میں ہوں یا اکتوبر کے آس پاس ۔ الیکشن کے لئے مناسب اور مثبت ماحول کے قیام کی بڑی اور اہم ذمہ داری عمران خان صاحب کی بنتی ہے وہ سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر ہیں ،الیکشن کا مطالبہ اور اس پر اصرار بھی ان کا ہی ہے،مقبولیت کی حاصل شدہ موجودہ لہر کا فائدہ بھی انہیں ہی ہونے کا امکان ہے لہذا دانائی اسی میں ہے کہ عمران خان تصادم اورمحاذ آرائی کی روش کو چھوڑ کر مکالمہ اور مذاکرات کی طرف آئیں۔ ان کا یہ کہنا کہ وہ موجودہ حکومت سے مذاکرات نہیں کرینگے ۔ مناسب نہیں۔ان کے خیال میں وہ سارے چور ہیں درست رویہ نہیں ۔ اسمبلی میں موجود اراکین متتخب عوامی نمائندے ہیں اور وہ اسی سسٹم سے حکومت کا حصہ بنے ہیں جس سسٹم سے عمران خان اور انکی جماعت حکومت کا حصہ ہیں۔ منتخب نمائندے جب تک ایوان کا حصہ ہیں ان سے گفت وشنید کرنا ایک سیاسی عمل ہے ۔ مجرمانہ حیثیت کا تعین اور فیصلہ عدالتوں کو کرنا ہے جب تک یہ فیصلہ نہیں ہو تا تب تک اراکین اسمبلی سیاسی نظام کا حصہ ہیں اور سیاسی مسائل و معاملات کے لئے ان سے مذاکرات کرنا کسی طور بھی معیوب نہیں۔خان صاحب کو اس مرحلے پر ذاتی ضد اور انا سے بلند ہو کر قومی مفادات اور بین الاقوامی تناظر میں ریاست کے استحکام کے لئے فیصلے کرنا ہو نگے لانگ مارچ ،دھرنا یا کوئی بھی ایسا اقدام جس سے ملک کی سیا سی فضا خراب ہونے کا امکان ہو اس سے گریز کرنا ہی وقت کا تقاضہ ہے پاکستان تحریک انصاف کے دیگر رہنمائوں کو بھی اس موقع پر اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اپنے قائد کو اس بات کی معقولیت پر قائل کرنا ہو گا کہ سسٹم میں رہ کر ہی وہ اپنے مقاصد کو حاصل کر سکتے ہیں ۔ جناب پرویز خٹک، محترم شاہ محمود قریشی ، جناب اسد عمر او ر سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر جیسے سینئر رہنمائوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے قائد کو مشاورت کے ذریعہ مصالحت اور مفاہمت کے لئے آمادہ کریں ۔جب موجودہ سیاسی صورت حال میں عمران خان کوئی راستہ نکالنے کے لئے صدر مملکت کی وساطت سے مقتدر قوتوں سے مدد اور مداخلت کے لئے بیک ڈور مذاکرات کرسکتے ہیں تو پھر سیاسی معاملات کے لئے سیاست دانوں سے مذاکرات کیوں نہیں ؟ حکومت میں شامل سیاست دانوں سے بھی اسی دانائی کی توقع ہے کہ وہ لب و لہجوں میں تلخی کے بجائے معاملات کو سنبھالنے کے لئے نرم و شیریں انداز اختیار کریں ۔موجودہ حکومت کے اکابرین اس بات کو تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کا حکومتی آشیانہ کمزور تنکوں پر قائم ہے، انہیں اپنے رویوں میں لچک اور مفاہمت کا مظاہرہ کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔کسی بھی قسم کی طاقت استعما ل کرنے کا رویہ خود ان کی اپنی سیاست کے لئے ضرر رساں ہوگا۔ وقت اب بھی عمران خان اور دیگر سیاست دانوں کی دسترس میں ہے، حالات ان کے درست فیصلے کے منتظر ہیں، درست وقت پر درست فیصلے سے ہی تاریخ میں قیادت کے مقام کا تعین ہو گا ۔باقی نام رہے گا اللہ کا ۔ ٭٭٭٭٭