عالمی مالیاتی اداروں کی فرمائش سے شروع ہونے والی نجکاری پاکستان کے شدید مالی بحران پر منتج ہوئی ہے۔ وہ تمام احتیاطی تدبیریں دھری کی دھری رہ گئیں ہیں جو عوام کو سرمایہ داروں کے ظلم سے بچا سکتی تھیں۔ جمہوریت اور احتسابی اداروں (ریگولیٹرز) کے باوجود اس مالی بحران کا بوجھ عوام کے کندھوں پر آن پڑا ہے تو سیاسی پارٹیوں کی ہی نہیں ریاست کی ساکھ بھی متاثر ہوئی ہے۔ مالیاتی خسارے کا دوسرا پہلو یہی نکلتا ہے کہ اگر سیاسی پارٹیاں مقامی حکومتوں کے درپے نہ ہوتیں تو عوام سے جڑی رہتیں، ان کے اندر جمہوریت فروغ پاتی جس کا اظہار ایک طرف تو شفاف احتسابی نظام کی صورت میں نکلتا دوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام کی چیرہ دستیوں سے عوام بھی محفوظ رہتے اور بیرونی سرمایہ بھی ملک میں منتقل ہوتا۔ عالمی مالیاتی ادارے جو قومی پیداوار میں اضافے کے لیے نوے کی دہائی کے اوائل سے ہی پاکستان میں قائم سول حکومتوں کو قرضے دے رہے ہیں ،ان کا مطمع نظر صرف معیشت کی ترقی ہی نہیں بلکہ جمہوری استحکام بھی تھا جو سوویت یونین کے زوال کے بعد سرمایہ دار اور عالمی مالیاتی اور ترقیاتی اداروں کے سرپرست مغرب کے لیے ایک مشن کا درجہ اختیار کرچکا تھا۔ مقامی حکومتیں اور نظام احتساب وسائل کی منصفانہ تقسیم اور پائیدار ترقی کے لیے لازم تھا۔ آزاد میڈیا ( اخبارات، ایف ایم ریڈیوز اور نیوز چینل) تمام سطح کی حکومتوں کی پالیسی سازی کے لیے اہم تھا۔ اب جب باہر سے قرض مل رہا تھا تو اشرافیہ کی رال ٹپکی ، شرائط من و عن تسلیم کرلیں اور آزاد معیشت پر ایمان لاتے ہوئے یہ نعرہ بھی لگادیا کہ حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں بلکہ اسے فروغ دینا ہے۔ نجکاری کا عمل نوازشریف کی پہلی حکومت سے شروع ہوکر مشرف دور کے اختتام تک جاری رہا۔ اس دور میں منافع بخش ادارے کوڑیوں کے بھاو فروخت ہوئے، اجارہ داریاں پروان چڑھیں جنہوں نے ایک طرف تو صارفین کا گلا گھونٹا دوسری طرف اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کی۔ منافع پر چلنے والی ادارے خسارے کا شکار ہوئے تو ان کا بوجھ قومی خزانے پر ڈال دیا۔معاشی بحران اور جمہوری خسارے میں بڑھائو آزاد معشیت کے فروغ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے غیر ارادی نتائج کی کہانی ہے۔ خسارے کا یہ پیچیدہ جال، جو ایک دوسرے کو تقویت دیتا ہے، نجکاری کا نتیجہ ہے جس نے نادانستہ طور پر اجارہ داریوں کی پرورش کی۔ سیاسی منظر نامے میں ہیرا پھیری کے لیے منافع کی متلاشی اشرافیہ کو طاقت دی، اور عام شہریوں کو پسماندہ کردیا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جیسے جیسے ان مسائل نے شدت اختیار کی ایک طرف ریگولیٹری اداروں کا گھلا گھونٹا دیا گیا تو دوسری طرف آئینی طور پر لازمی قرار دیا گیا۔ مقامی حکومتی نظام مثبت تبدیلی کی مسلمہ صلاحیت کے باوجود معطل یا مفلوج کردیاگیا۔ یوں اس عمل نے بہت سے غیر ارادی نتائج کو جنم دیا۔ صرف معیشت ہی نہیں جو نجکاری ہونے سے متاثر ہوئی ہے اس کا اثر سیاسست پر بھی پڑا جو معاشی اداروں کی باندی بن گئی۔ پاکستان میں نجکاری کے عمل کا باریک بینی سے جائزہ، شواہد پر مبنی جانچ پڑتال ، دھاندلی کی ایک شاندار مثال پیش کرتا ہے جس میں کاروباری مفادات کارکردگی یا پیداواری فوائد کی فراہمی کے قطع نظر ریاستی وسائل کا استحصال کرتے نظر آتے ہیں۔ 60 میں سے 51 ناکارہ یونٹس کا تعلق نجی شعبے سے ہے۔ دوسری طرف بینکنگ اور توانائی کے شعبے، خاص طور پر، نجکاری کے ٹھوس اثرات کو ظاہر کرتے ہیں جس نے مالیاتی خسارے میں اضافہ کیا اور عوام پر ٹیکسوں اور مہنگائی کا بوجھ بڑھایا۔ بینکنگ سیکٹر میں، نجکاری کے بعد منافع میں اضافہ ہوا، لیکن پیداواری شعبوں کو دے گئے قرضوں میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ اہم صنعتوں کے لیے فنانسنگ میں اس کمی نے ملک کی اقتصادی ترقی کے امکانات پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ مزید برآں، احتسابی اداروں کی موجودگی میں بھی دولت کا ارتکاز برقرار رہا، جو چند منتخب خاندانوں کے پائیدار اثر و رسوخ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ توانائی کے شعبے میں آئی پیییز کو بجلی کی پیداوار سے قطع نظر سرمائے کی واپسی کی ضمانت دی گئی۔ اس نجکاری ماڈل نے بنیادی طور پر منافع بخش صنعتوں ، جو کہ بنیادی ضروریات کی فراہمی سے متعلق تھیں، کی نجکاری کی جس سے مالی بحران بھی پیدا ہوا اور عام شہر یوں کو لازمی خدمات کی فراہمی میں کمی واقع ہوئی۔ سب سے مضر اثرات تعلیم اور صحت کے شعبوں کی نجکاری سے ہوئے کہ یہ شعبے انسانی ترقی کے لیے بنیاد کا درجہ رکھتے ہیں۔ ایک دفعہ ریاست اور شہریوں کے درمیان دوری کی بنیاد پڑ گئی تو اگلی کہانی یہی ہے کہ مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کے لیے حکومت نے امیروں کی بجائے عام لوگوں پر ٹیکس (جی ایس ٹی) لگانے کی روش اپنائی جبکہ اشرافیہ کو ٹیکسوں میں چھوٹ ہی نہیں بلکہ مراعات میں اضافے (بجلی ، گیس اور برآمدات کی مد میں) کا سلسلہ جاری رہا۔ جڑواں خساروں کے اس پیچیدہ جال کے درمیان، نچلی سطح پر جمہوریت اور آئینی طور پر لازمی بلدیاتی نظام امید کی کرن بن کر ابھرتا ہے۔ مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے سے معاشی ترقی کے بیانیہ کو دوبارہ لکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ انتظامی، مالیاتی اور سیاسی طور پر خودمختار حکومتیں سیاسی پارٹیوں کو عوام کے قریب لانے اور انہیں اجارہ داریوں کے اثر سے دور کرسکتی ہیں۔ انسانی ترقی پر مرکوز پالیسیوں اور احستاب کے لیے نچلی سطح پر پیدا ہونے والا دبائو ملکی سیاست اور معیشت کی نئی سمت متعین کرسکتا ہے۔