شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ میں حکومت پاکستان بنیادی مسائل کو ٹھیک کرنے کیلئے صحیح سمت میں سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔دیگر بہت سے ترقی یافتہ ممالک کی کامیاب پالیسیوں کو سامنے رکھتے ہوئے وفاقی کابینہ نے اہم تعیناتیوں میں 65 سال تک عمر کی حد ختم کرتے ہوئے مختلف امور کے ماہرین کو سپیشل پروفیشنل پے سکیلز پالیسی کے تحت ماہانہ پانچ سے 20 لاکھ روپے تک کی تنخواہ پر تعیناتی کی منظوری دے دی جبکہ اہم پوزیشنوں پر موجودہ تعیناتی میں 65 سال کے بعد توسیع ہو سکے گی۔اس ترمیم کے ذریعے باصلاحیت پیشہ ور افراد، تکنیکی ماہرین اور کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کی جائیں گی،معاشی مسائل کے خاتمے کیلئے شہباز حکومت عالمی معیارکا ٹیلنٹ پول بنانے پر کام کر رہی ہے، وزارتوں اور ڈویژنوں میں گورننس کے نظام میں جدت لا کر مزید موثر بنایا جائیگا۔ مشہورفوڈ چین کے ایف سی کے مالک نے 65سال کی عمر میں اس کی بنیاد رکھی اور دنیا بھر میں اسکی برانچز ہیں۔کامیاب افراد کی ایک لمبی فہرست ہے جنہوں نے زندگی میں ریٹائرمنٹ لینے کی بجائے اپنی اننگز جاری رکھی اور وہ تجربے کی بنیاد پر پہلے سے بھی زیادہ کامیاب ہوئے۔تجربہ کار افراد سے فائدہ اٹھانے کا فیٖصلہ یقینی طور پر وقت کی اہم ضرورت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی گزارش ہے کہ موجودہ سرکاری ملازمین اور مستقبل میں سرکاری ملازمت کی طرف آنے والے افراد کو بھی مطمئن زندگی گزارنے کیلئے اچھی تنخواہ اور بنیادی سہولیات دی جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر سرکاری ملازمین کو ذرا سا بھی خوف ہو کہ ان کو سرکاری ملازمت میں کرپشن اور اختیارات سے تجاوز کا موقع نہیں ملے گا تو پاکستانیوں کی اکثریت سرکاری ملازمت اختیار کرنا تو دور اتنی کم تنخواہ پر اپلائی کرکے بھی اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ایمانداری اور محنت سے کام کرنے کے خواہاں افراد کا سرکاری ملازمت کی طرف کوئی رجحان نہیں۔ذہین اور ایکسڑا آرڈنری صلاحیتوں کے حامل نوجوان پاکستان میں محدود تنخواہ کے باعث سرکاری ملازمت کی بجائے بزنس یا بیرون ملک ملازمت کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسی لیے سرکاری ملازمین کی اکثریت ایورج مائند سیٹ اور نوکری پسند اذہان پر مشتمل ہے۔لیکن بدقسمتی دیکھئے کہ اچھے اداروں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے بزنس کرنے والے افراد عجیب و غریب قوانین کے باعث سرکاری دفاتر کے دھکے کھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔سرکاری افسران کے ناروا سلوک اور من مرضیوں سے تنگ آکر پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی اہمیت رکھنے والا تاجر طبقہ اپنے وسائل سمیٹ کر باہر جانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔بزنس مین کو پرسکون اور سازگار ماحول فراہم کیے بن معاشی استحکام ممکن نہیں۔ یہاں پر وزراء اعلیٰ کرپٹ سی ای او ایم کے سامنے بے اختیار ہیں ،میونسپل کمیٹی والے ایک ایک ریڑھی سے یومیہ خرچہ لیکر اسے بیچ سڑک روڈ بند کرکے دکانداری کی اجازت دے دیتے ہیں۔ہر دکان کے آگے تین غیر قانونی سٹال اور تجاوزات لازم ہیں اور انتظا می افسران جیب گرم کرکے سب اچھا کی رپورٹ دیتے ہیں۔سرکاری گاڑیوں میں فراٹے بھرنے کی بجائے اپنی ذاتی گاڑی پر کسی بازار سے گزر کر دکھائیں اول تو گزرنا ہی محال ہے اگر گزر بھی جائیں تو تجاوزات کی وجہ سے ایک کلو میٹر کا فاصلہ تیس منٹ میں طے ہوتا ہے اور لاکھوں روپے کی قیمتی گاڑی تجاوزات اور ٹھیلوں کی ٹکروں سے سکریچ زدہ ہوچکی ہوتی ہے۔انہی تجاوزات کی وجہ سے آئے روز حادثات ہوتے ہیں،نہ صرف سفری مشکلات کا سامنا ہے بلکہ شاہرائیں بھی جلد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔انتظامی افسران سرعام کہتے ہیں کہ ہم اوپر تک حصہ دیتے ہیں ۔وہ وقت دور نہیں جب قوم ان تجاوزات کی تصاویر کے ساتھ انتظامی افسران کی فوٹو لگا کر سوشل میڈیا پر شئیر کرے گی کہ اس ناجائز ریڑھی کا روزانہ بھتہ انکروچمنٹ آفیسر ،سی ای او ایم سی ، ٹی ایم اے ،اسسٹنٹ کمشنر اور سیکرٹری لوکل گورنمنٹ کو فی کس کتنا جاتا ہے۔ موجودہ حکومتی ارباب اختیار کو جہاں تک میں جانتا ہوں وہ ایسے کسی بھتہ خوری کے حصہ دار نہیں ہوسکتے لیکن ان کرپٹ افراد کو کھلی چھٹی دینے ، روڈ بلاک اور تجاوزات کی وجہ سے دیر سے گھر اور دفتر پہنچنے والوں سے دل ہی دل میں گالیاں ضرور کھاتے ہیں۔وزیر اعظم اور وزراء اعلیٰ کو سوچنا ہو گا کہ پیسے انتظامی افسران کھائیں اور گالیاں آپ، آخر کیوں؟ جناب وزیر اعظم تمام صوبائی وزراء اعلیٰ کے ساتھ مشاورت کرکے حقیقت پسندی کی طرف آئیں اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے تا کہ وہ بھی رزق حلال کے ساتھ اچھی زندگی گزار سکیں۔ ہمارا المیہ ہے کہ ہم اسسٹنٹ کمشنر ،اے ڈی سی آر اور ڈی سی کو تنخواہ تو دولاکھ روپے دیتے ہیں جبکہ کروڑوں اربوں روپے کی سرکاری زمینوں کا اختیار دے دیتے ہیں پھر وہ بھی اربوں روپے کی زمین کروڑوں اور کروڑوں والی لاکھوں میں من پسند افراد کو نیلام کر کے حصہ وصول کر سائڈ پر ہو جاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے بلکہ پرائیویٹ اداروں کو بھی پابند کیا جائے کہ موجودہ حالات کی مطابقت سے سیلری دی جائے اور احتساب کے اداروں کو مضبوط کیا جائے تاکہ مستحکم ،خوشحال اور ترقی کرتے پاکستان کے خواب کی عملی تعبیر ممکن ہوسکے۔