سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود نے پیر 15 سے 16 اپریل 2024 کو پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا ہے۔ وفد میں سعودی وزیر ماحولیات، پانی و زراعت، صنعت و معدنی وسائل، معاون وزیر سرمایہ کاری، سعودی پاکستان سپریم کوآرڈینیشن کونسل (ایس پی ایس سی سی) کے جنرل سیکرٹری اور وزارت توانائی اور سعودی پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کے سینئر حکام شامل تھے۔ اس دورے کا مقصد دو طرفہ اقتصادی تعاون کو بڑھانا اور پہلے سے طے شدہ سرمایہ کاری کے معاہدوں کو آگے بڑھانا ہے۔ اسی طرح سعودی معاون وزیر دفاع طلال بن عبداللہ بن ترکی العتیبی نے بھی دفاع سے متعلق دوطرفہ منصوبوں کو حتمی شکل دینے کے لیے 17 تا 18 اپریل کو پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا ہے۔ اعلیٰ سطحی ان دوروں سے ایک عام اور غالب تاثر یہ ملتا ہے کہ تعاون کے نئے شعبوں کی نشاندہی کرتے ہوئے حالیہ برسوں میں زیر بحث رہنے والے معاہدوں کو حتمی شکل دینے کے لیے دونوں ملکوں کی قیادت کی طرف سے ٹھوس کوششیں جاری ہیں۔ دوسری طرف اگر دورہ کرنے والے وفد کے حجم اور عہدوں پر نظر ڈالی جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی مملکت گہری دلچسپی کے ساتھ پاکستان کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو بڑھانے کے منصوبوں پر عمل پیرا ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ شہباز شریف نے دوسری دفعہ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد 28 سے 30 اپریل تک سعودی عرب کا اپنا پہلا تین روزہ سرکاری غیر ملکی دورہ کیا جس کی دعوت ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اس وقت دی جب انہوں نے وزیر اعظم شہباز شریف کو ان کے انتخاب پر مبارکباد دینے کے لیے فون کیا۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان طویل اور تاریخی برادرانہ تعلقات ہیں، جن کی جڑیں مشترکہ عقائد، مشترکہ تاریخ اور باہمی تعاون پر مبنی ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان برادرانہ تعلقات اور قریبی تعاون کو فروغ دینے میں باقاعدگی سے اعلیٰ سطح کے دو طرفہ دورے اہم ثابت ہوئے ہیں۔ تاہم، یہ قابل ذکر ہے کہ سعودی قیادت شریف خاندان کے ساتھ کام کرنے میں زیادہ آسانی محسوس کرتی ہے۔ پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ ہمیشہ گہرے تعلقات رہے ہیں اور سعودی عرب نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ یہ سعودی عرب کے شاہ عبداللہ ہی تھے جنہوں نے پاکستان کو نہ صرف ادھار پر تیل فراہم کیا بلکہ 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے نتیجے میں پاکستان پر عائد اقتصادی پابندیوں کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے طویل مدت کے لیے تیل کی وافر مقدار مفت فراہم کی۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دوطرفہ تعلقات 10 اپریل 2015 کو پاکستانی پارلیمنٹ کی جانب سے سعودی عرب اور یمن کی جنگ میں غیر جانبدار رہنے کی قرارداد اور بعد ازاں پاکستان کی جانب سے پاکستانی افواج کو یمن جنگ میں نہ بھیجنے کے فیصلے کے نتیجے میں تناؤ کا شکار رہے ہیں۔ 2018 کے انتخابات کے نتیجے میں پاکستان میں عمران خان کی حکومت کے قیام کے بعد دونوں ممالک کی جانب سے ایک بار پھر پاکستان سعودی عرب تعلقات کو مکمل اور ٹھوس سطح پر لانے کی کوششیں کی گئیں، جس کے نتیجے میں فروری 2019 میں ولی عہد محمد بن سلمان نے پاکستان کا دورہ کیا جس کو اقتصادی تعاون کے میدان میں سعودی پاکستان تعلقات کو دوبارہ ترتیب دینے کی ایک نئی کوشش کے طور پر دیکھا گیا۔ تاہم بعض جغرافیائی اور علاقائی پیش رفتوں اور دونوں اطراف کے باہمی تحفظات کے باعث شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان تعطل کو توڑنے اور روایتی گرم جوشی کو بحال کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں رہا۔ سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں روایتی گرمجوشی لانے کی کوششیں جاری رہیں اور کسی حد تک کامیاب بھی ہوئیں جس میں وزیراعظم عمران خان کے مئی 2021 میں دورہ سعودی عرب کے دوران 'سپریم کوآرڈینیشن کونسل' کا قیام بھی شامل ہے۔ جبکہ پاکستان نے 22-23 مارچ 2022 کو اسلام آباد میں OIC وزرائے خارجہ کونسل کے 48 ویں اجلاس کی میزبانی کی۔ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین مئی 2021 میں طے پانے والے ایک معاہدے کے مطابق، دونوں فریقوں نے دونوں ممالک کو قریب لانے کے لیے سعودی ولی عہد اور پاکستانی وزیر اعظم کی مشترکہ صدارت میں 'سپریم کوآرڈینیشن کونسل' قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا تاکہ ایک دوسرے کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم ہوسکیں. اِس کونسل کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید وسعت دینے اور اقتصادی اور دیگر روابط کو بڑھاتے ہوئے باہمی تعلقات کو ادارہ جاتی شکل دینے کے لیے ایک جامع حکمت عملی تیار کرنا تھا۔ گزشتہ سال سے ہی پاکستان اور سعودی عرب نے اپنے تعلقات میں روایتی گرمجوشی کی بحالی کے لیے سنجیدہ کوششیں شروع کر دی تھیں۔ تقریباً ستائیس لاکھ سے زائد پاکستانی سعودی عرب میں آباد ہیں جو دونوں ممالک کی ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تجارتی تعلقات ہیں، جن میں 2019 میں مجموعی طور پر 1.7 بلین ڈالر سے زیادہ کا حجم ہے جو سعودی عرب سے اس کی تیل کی درآمدات کا تقریباً 74 فیصد ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین قریبی فوجی تعلقات ہیں۔ 1970 کی دہائی سے پاکستانی فوجی ارض مقدس کی حفاظت کے لیے سعودی عرب میں تعینات ہیں۔ پاکستان سعودی فوجیوں اور پائلٹس کو تربیت بھی فراہم کرتا رہا ہے اور سعودی مسلح افواج کو وسیع پیمانے پر مدد، اسلحہ اور تربیت فراہم کرتا ہے۔ دونوں ممالک باقاعدگی سے کثیر جہتی مشترکہ منصوبے اور دفاعی مشقیں کرتے ہیں۔ پاکستان اب بھی سعودی عرب کو ایک سٹریٹجک اتحادی سمجھتا ہے جبکہ عالمی سیاست میں سعودی عرب کے اثر و رسوخ سے پوری طرح واقفیت رکھتا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ دونوں فریقوں نے تزویراتی معاملات پر اپنی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی اور اب دونوں ممالک موجودہ سٹریٹجک تعاون اور دو طرفہ تعلقات کو 'مزید مضبوط' کرنے کے لیے ایک جامع اور ٹھوس لائحہ عمل پر عمل پیرا نظر آتے ہیں جس کی ایک مثال سعودی وزیر خارجہ کے اس بیان سے ملتی ہے جو انہوں نے پاکستانی وزیرخارجہ اسحاق ڈار کے ساتھ مشترکہ نیوز کانفرنس کے دوران دیا ہے۔ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود کے اپنے الفاظ میں ان کا حالیہ دورہ پاکستان، آنے والے مہینوں میں اقتصادی ترقی کے امکانات کو جانچتے ہوئے "اہم فوائد" دے گا۔