ڈاکٹر خالدہ انور سلیقے کے ہنر سے آراستہ تخلیق کار ہیں، سلیقے کی یہ چھب میں نے ان کی زندگی ہر تصویر میں دیکھی ہے۔وہ گھر گرہستی ہو یا ان کے خالص تخلیقی جوہر شعر و شاعری کا بیان یا پھر دوستی نبھانے کا محاذ، وہ ہر جگہ اپنے خلوص بھرے سلیقے اور سچائی کے ساتھ منفرد نظر آتی ہیں۔’’کہاں گمان میں تھا‘‘ ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے جو معروف ادبی ماہنامہ بیاض کے پلیٹ فارم سے چھپا ہے۔ بلا شبہ خالدہ کی شاعری تمام تر فنی اور تخلیقی جمالیات سے مزین ہے۔ادب کے دو ممتاز ترین شخصیات جناب افتخارِ عارف اور ڈاکٹر خورشید رضوی کی آرا سے آراستہ کتاب سنجیدہ قاری کی توجہ کھنچتی ہے ۔ بیمار ماں کے ساتھ برسوں راتیں آنکھوں میں کاٹنے والی خالدہ پر شعر کی دیوی مہر بان رہتی ہے۔یا شاید اللہ تعالی نے اس کی ڈھارس کے لیے کوئی ایسا نظام بنا دیا تھا کہ ایک طرف اپنی ماں کی خدمت میں مصروف ہے تو دوسری طرف مشق سخن بھی جاری ہے ۔ برسوں اس کے شب و روز ایسے ہی گزرے کہ وہ تمام رات بستر پر پڑی بیمار ماں کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ان کی ضرورتیں پوری کرنے میں لگی رہتی ہے۔ ایک ماں کی طرح جو اپنے بچے کو رات آرام کی نیند سلانے کے لئے خود بے چین رہتی ہو۔ خالدہ نے اپنی زندگی کے کئی برس اسی طرح گزار دئیے ہیں۔دوسری طرف اس کے ہاتھ میں کاغذ اور قلم ہوتا ہے،رات گزرتی رہتی ہے اور شعر آنسوؤں کی طرح کاغذ کے رخساروں پر بہتے چلے جاتے۔ ان کی شخصیت کا یہ پہلو متاثر کن ہے کہ وہ زندگی کی راہ میں آنے والے مسائل اور رکاوٹوں کو بڑے سبھاو اور سلیقے سے پار کرتی جاتی ہیں اور کسی نہ کسی تخلیقی سرگرمی میں خود کو مصروف رکھتی ہیں۔یوٹیوب چینل پر شعر وادب اور فن کے دوسرے مظاہر سے متعلقہ نامور شخصیات سے انٹرویو کا ایک سلسلہ شروع کیا جو کہ ہمارے مروجہ غیر معیاری یوٹیوب چینلوں میں بالکل منفرد نوعیت کا چینل ہے۔ ایک دو دوستوں نے خالدہ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ جس طرح کا سنجیدہ یوٹیوب چینل بنا کے بیٹھی ہیں اس میں آپ کو سبسکرائبرز کیسے ملیں گے مگر وہ خالدہ ہی کیا جو اپنے کسی معیار پر سمجھوتہ کر لے۔فطری طور پر خالدہ آسان راستے پسند نہیں کرتی وہ مشکل پسند ہے۔ اتنی کہ درد سے رشتہ ہر حال میں استوار رکھتی ہے۔ایثار کیش ایسی کہ جون ایلیا کے اس شعر کی تفسیر معلوم ہوتی ہیں۔ ان کی امید ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ عمر گزار دیجیے عمر گزار دی گئی۔۔۔!! اور پھر ایسی مشکل زندگی کے بعد اگر دل تھوڑا سا آرام کرنا چاہے اور آپ سے ناراض ہو جائے تو اس میں حیرت کیسی! گزشتہ برس کی بات ہے، خالدہ کی بیمار والدہ طویل بیماری کے بعد کو مے کے حالت میں بستر مرگ پر پڑی تھیں۔ دو نرسوں کی چو بیس گھنٹے کی نگرانی میں گھر ایک اسپتال بن چکا تھا ۔ایسے بے یقین تھکا دینے والے دنوں میں ایک روز مجھے خالدہ کا فون آیا کہنے لگیں ’’دل کے معاملات کچھ ٹھیک نہیں ڈاکٹر نے مجھے فوری اوپن ہارٹ سرجری کروانے کا کہا ہے ‘‘ یہ بات خالدہ انور نے مجھے بالکل اس انداز میں بتائی جیسے کہہ رہی ہوں کہ آج دوپہر میں میں نے آلو گوشت پکا یا ہے۔مجھے دھچکا ضرور لگا مگر حیرت نہیں ہوئی ۔ میں نے اس کو برسوں زندگی کی جس تھکا دینے والی رہ گزر پر ضرورت سے زیادہ بوجھ اٹھا کر چلتے دیکھا ہے اس کا کچھ تاوان تو ادا کرنا بنتا ہی تھا۔ چند دنو میں والدہ عدم کو سدھاریں تو ایک ہفتے بعد ہماری شاعرہ اوپن ہارٹ سرجری کے صبر آزما عمل سے گزریں۔کسی بھی تخلیق کار کی تخلیق کو سمجھنے کے لئے اس کی زندگی کے شب و روز کو جاننا ضروری ہے۔اس کی زندگی کی ندی خوشی اور غم کے کن پہاڑی راستوں سے گزری۔ کیسے خواب اس کے آسمان پر پورے چاند کے صورت جھلملائے اور ڈھل گئے۔زندگی میں آنے والے ہجر و وصال ،محبتیں ،وفائیں، بے وفائیاں، رفاقتیں تنہائیاں۔۔۔ یہی کچھ تو ایک تخلیق کار کی تخلیقی دنیا کا لینڈ اسکیپ ترتیب دیتے ہیں۔ شاعر تو خاص طور وہی کچھ بیان کرتا ہے جو اس کے ساتھ زندگی نے برتا ہو۔’’کہاں گمان میں تھا ‘‘کا ہر شعر خالدہ کی زندگی کی وہ کہانی ہے جو اس پر بیتی۔ اپنے پندار اور انا کے چراغ طاق پر رکھ دیے بجھا کے چراغ روشنی کی سبیل کرتے ہیں کاغذوں پر بنا بنا کے چراغ دامن زیست سے پندار کو باندھے رکھنا ایک آزار ہے اس بار کو باندھے رکھنا دائمی ساتھ کی خواہش تو ہے ایسے جیسے عکس دیوار کو دیوار سے باندھے رکھنا ٭٭٭ سکھ تو بہتے سمے کا پانی ہے غم کی تاثیر جاودانی ہے حاصل عمر کیا ہے ؟ لا حاصل رائیگانی سی رائیگانی ہے۔۔! ہاتھ میں خالدہ کی کتاب ہے اور کتاب میں بکھرے اس کے اشعار پڑھتے گمان گزرتا ہے کہ یہ شاعری نہیں ایک مہیب ،گہری تنہائی میں شاعرہ کا خود سے مکالمہ کرتے ہوئے اداسی کی بازگشت ہے۔یہ بازگشت آپ کے اندر تک سفر کرے گی اور آپ کے دل کو بھی اداسی سے ہمکنارکردے گی! ٭٭٭٭٭