پاکستان میں جینے کے لیے دل پتھر کا اور حس بے حسی کی ہونی چاہئے۔دہائیاں لگیں اس سیاسی بحران کو کھینچ کھانچ کر معاشی بحران بنانے میں۔اب جماعتوں پر جماعتیں بن چکی ہیں۔وہی فرسودہ لوگ، وہی لٹیرے، وہی بچہ جمورا، وہی کھیل تماشا۔آخر سیاست دان اور دیگر سٹیک ہولڈرز ملک کی سلامتی کے لیے کیوں نہیں ایک گول میز پر بیٹھ کر بات کرتے؟ اگر اس بات کا تصفیہ ہو جائے تو قومی سْود و زیاں کا پتہ چل جائے گا۔ابھی چند دن پہلے ہی یومِ آزادی گزراجو مسلمانوں کی دعاؤں، اْمنگوں اور الگ شناخت کی علامت کی یاد دلاتا ہے۔ آزادی کا مطلب ہے کہ گھر،بشر،شجر،برگ و ثمر ہر چیز محفوظ ہو۔اس وقت وطنِ عزیز کو مثبت اور منفی رویوں کے بیچ کے فرق کی اہمیت کو جاننا از حد ضروری ہے۔آزادی کی بہت قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔پاکستان کی بنیادوں میں بھی لاکھوں انسانوں کے خون کی اینٹیں لگی ہیں۔انسان تو انسان وطن سے محبت کا جذبہ جانوروں کے اندر بھی پنپتا ہے۔اپنے گھروں سے چرند،پرند اور حشرات الارض یعنی کیڑے مکوڑے تک صبح سویرے کھانے کی تلاش میں نکلتے ہیں تو شام ڈھلنے پر اپنے ہی گھر میں واپس آتے ہیں۔پاکستان بھی ہمارا گھر ہے۔حیوان بھی اپنے گھر کو صاف ستھرا رکھتے ہیں۔ہم یومِ آزادی تو مناتے ہیں مگر کبھی گھر بیٹھ کر خود احتسابی نہیں کرتے؟ نہیں سوچتے کہ ہمیں یہاں سے سیاست، جنون اور جہالت کی انتہا پسندی کو کس طرح ختم کرنا ہے؟ پاکستان کی تقسیم کی بنیاد چونکہ دو قومی نظریے پر تھی تو دونوں طرف کے لوگوں کو قیمت چکانا پڑی۔ دونوں ملک جو کبھی ایک تھے منقسم ہو کر ہمسائے بن گئے۔ دونوں طرف کے لوگوں کے جذبات و احساسات ہر یومِ آزادی پر لوگوں کے جذبات کبھی جْدائی کے بادلوں کی طرح آنکھوں سے برستے ہیں تو کبھی آزادی مْسکان بن کر ہونٹوں پر کِھل اْٹھتی ہے۔ سال گرہ ریمائنڈر ہوتی ہے چاہے انسانوں کی ہو یا ملکوں کی۔پاکستان کی سال گرہ ہمیں اس کے عمل کی قربانیوں کی یاد دلاتی ہے۔ یہ تجدیدِ وفا کا وہ دن ہے جس میں ہمیں اس ملک کی تعمیرو ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہے۔ لیکن! ہوا کیا؟ سیاست دان اپنے مفادات کو جیبوں میں ڈالے پھر رہے ہیں۔ پاکستان کے بانیوں نے جب اس ملک کا آئین بنایا تھا تو اس کی شکل اسلامی اور جمہوری تھی۔ لیکن گزرتے وقت نے نہ تو آئین کو جمہوری رہنے دیا اور نہ ہی اسلامی۔ اس وقت نہ تو ملک میں کوئی آئین ہے نہ ہی پارلیمان۔ نگران کابینہ آ چکی ہے۔مختلف سیاسی جماعتوں کے بیچ ابہام، ذاتی مفادات اور اپنی مرضیوں کی تشریح نے مزید اْلجھایا ہے۔ گذشتہ کئی دہائیوں سے ملک کی گھوڑا گاڑی کو چھانٹے سے چلانے والے اپنی پسند کے گھوڑے جوتتے ہوئے ہانکتے چلے جا رہے ہیں۔ نگران وزیرِ اعظم ملک میں عام انتخابات کروانے کے لیے تعینات ہوتے ہیں۔اب دیکھتے ہیں الیکشن مقررہ مدت میں ہوتے ہیں یا نہیں۔ عوام کے ذہنوں میں سوالات ظاہر ہے زور پکڑتے جائیں گے۔ موجودہ حکومتی سیٹ اپ کی کارکردگی بھی زیرِ بحث آئے گے۔ یوں بھی ان کا تعلق ملک کے پسماندہ صوبے بلوچستان سے ہے۔ لوگوں کی اْمیدیں ہیں کہ وہ اس صوبے کی تعمیر و ترقی کے لیے روز و شب کام کریں گے اور تاریخ میں اپنا نام سنہرے حروف میں لکھوا جائیں گے۔ ہمارے بابا قائدِ اعظم نے اقلیتوں کومکمل حقوق و تحفظ فراہم کیا تھا۔ انہوں نے پاکستان کا گورنر جنرل نامزد ہونے کے بعد 14جولائی 1947 کو نئی دہلی میں پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں کہا!’’میں اب تک بار بار جو کہتا رہا ہوں اس پر قائم ہوں۔ ہر اقلیت کو تحفظ دیا جائے گا۔ ان کی مذہبی رسومات میں دخل نہیں دیا جائے گا اور ان کے مذہب، اعتقاد، جان و مال اور کلچر کی پوری حفاظت کی جائے گی۔ وہ ہر لحاظ سے برابر کے شہری ہوں گے۔‘‘ آج کیا ہو رہا ہے۔ ہم اپنی اقلیتوں کو جینے نہیں دے رہے۔ جڑانوالہ کے افسوس ناک واقعے نے پوری قوم کو دہلا دیا ہے۔ اس وقت ریاست کا فوکس مکمل طور پر اس واقعے پر ہونا چاہیئے۔ اس کا محرک مبینہ طور پر قرآن پاک کو نذرِ آتش کرنے کا ہے۔ جب اس واقعے کا مقدمہ درج ہو چکا تھا تو پھر مسیحی برادری کا گرجا اور آبادی کو جلانا ایک قبیح عمل تھا۔ مسیحی بہنیں روتے ہوئے کہہ رہی ہیں کہ ہم اپنی جانیں بچانے صرف اپنے بچوں اور تن کے کپڑوں کے ساتھ گھروں سے نکل گئے۔ ہمیں لگا کہ پھر سے ملک کا بٹوارہ ہو رہا ہے۔ خدا نے تمام انسانوں کو ایک ماں باپ سے پیدا کر کے انسانی اخوت کا درس دیا ہے۔بحیثیت انسان سب بھائی بھائی ہیں۔ اسلام تو امن کا درس دیتا ہے۔ کسی کو بھی اپنے مذموم ارادوں کے لیے اقلیتوں کو نقصان پہنچانا ہر گز جائز نہیں۔صلح حدیبیہ کے بعد حضرت اسما کی ماں مشرکہ تھیں۔ کچھ تحائف لائیں ۔انہوں نے انکار کیا تو آپﷺ نے فرمایا اپنی ماں سے صلہ رحمی کرو۔ مختلف صحابہ کرام جن کے والدین ایمان نہ لائے تھے اپنے غیر مسلم رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتے تھے۔ سنن ابی داؤد (3052) میں ارشادِ نبویﷺ ہے: خبردار! جس نے (اقلیتی فرد پر) ظلم کیا، اس کا حق غصب کیا، اْسے تکلیف دی یا اس کی کوئی چیز لی تو بروزِ قیامت میں اس کی طرف سے جھگڑوں گا۔‘‘ مباہلہ کے بعد رسولﷺ نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے میں لکھا تھا: ’’آپ کے گرجا گھر، خانقاہیں اور لوگ ہماری پناہ میں ہیں۔ بدلے میں آپ جزیہ اد کریں گے۔ یہ جزیہ ریاست اور قوم کی ترقی کے لیے ہوگا۔ چاہے آپ اسلام قبول نہیں کرتے۔ قرآن اور محمدﷺ کو نہیں مانتے۔ ہم پھر بھی آپ کا عیسائیوں کے طور پر دفاع کرتے رہیں گے۔ کم از کم ہم امن پسندی کے ساتھ ایک دوسرے کے لیے موجودہیں‘‘۔ نجران کے عیسائی اس معاہدے سے متفق ہوئے اور سمجھ گئے کہ یہ ایک شرعی دین ہے۔ اب ہم اس اندو ہناک واقعے کے بعد روز قیامت نبی کریمﷺ کو منہ کس طرح دکھائیں گے۔بابا جناحؒ کو کیا جواب دیں گے؟ ٭٭٭٭٭