300 خوابوں سے بھرے ہوئے پاکستانی نوجوان ڈوب کر مر گئے اور پاکستان میں حکومتی سطح پر کہیں کوئی ہلچل دکھائی نہیں دے رہی۔پردیسی پانیوں میں بے بسی سے مرنے والوں کا سانحہ ایسا نہیں کہ جسے بھلایا جاسکے۔اہل اختیار واہل اقتدار سمیت سیاسی اور سماجی دانشوروں کو اس سانحے پر سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ فی الفور ایک کمیشن بنائے جو دردمند پاکستانیوں پر مشتمل ہو جس میں سیاسی، سماجی ماہرین ،مفکرین اور دانشوروں کے ساتھ ساتھ سمال بزنس مینٹور اور ڈیجیٹل سکلز کے ماہرین، ڈیجیٹل اکانومی کے ایکسپرٹس کو مدعو کیا جائے۔ان سے تجاویز طلب کی جائیں کہ کس طرح ہم کم پڑھے لکھے نوجوانوں کومعاشی مسائل کی دلدل سے نکال سکتے ہیں۔کس طرح کم پڑھے لکھے نوجوانوں کو نئے ہنر سکھا کر انہیں معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا موقع دے سکتے ہیں۔ جب ہم نوجوانوں کو مختلف ہنر سے آراستہ کریں گے تو اس کے بعد ان کے لیے اپنے وطن میں بھی پیسہ کمانے کے مواقع ہوں گے۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ اس ہنر کی بنیاد پر بیرون ملک بھی نوکریوں کے لیے اپلائی کر سکتے ہیں، یوں وہ قانونی اور محفوظ راستہ کے ذریعے بیرون ملک جاسکیں گے۔یہی راستہ ہے کہ ہمارے بیٹے غیر ملکی ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ کر اپنی زندگیاں پردیسی پانیوں میں غرق نہ کریں۔اس پرجنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضروری ہے۔ اس ملک کو سیاسی ٹاک شوز اور سیاسی رہنماؤں کی آپس کی لڑائیوں نے یرغمال بنا لیا ہے میں ہاتھ جوڑ کر کہنا چاہتی ہوں کہ خدا کے لئے ہمیں مفاد پرست سیاستدانوں کی نہیں سماجی رہنماؤں اور ڈیجیٹل اکانومی کے ماہرین کی ضرورت ہے۔ہمیں ایسے استادوں کی ضرورت ہے جو نوجوانوں کو مایوسی کی تاریکی سے نکالیں اور انہیں سکھائیں کہ کس طرح آپ اپنی قسمت پاکستان میں رہ کر بھی بدل سکتے ہیں۔ ہمیں ایسے مینٹورز کی بھی ضرورت ہے جو پاکستانی قوم کو شکر کرنے کا ہنر سکھائیں۔سانحے پر جو کمیشن بنایا جائے وہ اس کاکھوج لگائے کہ لوگ کیوں اپنی جمع پونجی گنوا کر اپنے نوجوان بیٹوں کو ان دیکھے راستوں کا مسافر بنا دیتے ہیں۔دو تین زاویوں سے اس مسئلہ کو دیکھنا ضروری ہے۔ ہمارے ہاں نمائش کا پہلو بہت اہم ہے۔ شادیاں ہمارے ملک میں بہت مہنگی کر دی گئی ہیں، اس پر بھی کچھ پابندی لگنی چاہیے۔شادیوں کو جس مصنوعی شان و شوکت سے کیا شادی کے موقع کو دولت کی نمائش کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ پڑھے لکھے لوگوں میں زندگی کا واحد مقصد یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی شادیاں اس دھوم دھام سے کریں کہ خاندان دیکھے۔ اپنی زندگیاں داؤ پر لگا کر غیر قانونی طریقے سے باہر جانے کے خواہش مند نوجوانوں کے حالات ان کی خواہشات اور مقاصد کی اگر کیس سٹڈی کی جائے تو میں آپ کو یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ اس میں 99 پرسنٹ اسی قسم کے مسائل ہوں گے۔ ایسے نوجوان اپنی بہنوں کی شادیاں کرنے کے لیے، ان کے لیے بھاری جہیز اکٹھے کرنے کے لیے، زیورات اکٹھے کرنے کے لئے اور پھر اپنی شادی بڑی دھوم دھام سے کرنے کے لیے بیرون ملک کا سفر اختیار کرتے ہیں۔ خاص طور پر جب ان کے پیش نظر مقصد ہوتا ہے کہ وہ اپنی بہنوں کی شادیاں دھوم دھام سے کریں تو بیرون ملک سفر اختیار کرنا ان کے لیے ایک مقدس مقصد فریضہ بن جاتا ہے۔سادگی سے شادی کرنے کے حوالے سے قومی سطح پر سخت قانون سازی ہونی چاہیے۔ولایت پلٹ نوجوان بیرون ملک مزدوری سے کمایا ہوپیسہ باراتوں میں لٹاکر اپنے جاہل خاندانوں میں ناک اونچی کرتے ہیں ایسی کئی ویڈیو سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ ہنر سیکھ کر کر دوسرے ملکو میں قانونی طریقے سے نوکریوں کا حصول کوئی ایسی خواہش نہیں جس پر قدغن لگائی جاسکے۔ اسلام میں بھی سفر کو وسیلہ ظفر کہا گیا ہے۔ مگر انسانی سمگلر نوجوانوں کو جس طرح شیشے میں اتار کر مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور انہیں غیر قانونی طریقے سے یورپ بھیجنے کے خواب دکھاتے ہیں ،اس مشق ستم کو اب بند ہونا چاہیے۔ یہ اہم قومی ایشو ہے اسی سال میں دو دفعہ یہ سانحہ ہو چکا ہے۔اس سال فروری میں بھی اٹلی جانے والی والی ایک کشتی ڈوب گئی تھی کئی پاکستانی نوجوان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ ٹونٹی فور سیون کام کرنے والے ہمارے الیکٹرانک چینلز لوگوں کو باشعور کرنے کے لئے اس میں اپنا حصہ ادا کریں۔ایسے مافیاز پر سخت ہاتھ ڈالا جائے۔پاکستان کے کچھ شہر ایسے ہیں جہاں ہر گھر سے نوجوان بیرون ملک مزدوری کرنے کے لیے جاتے ہیں۔ اس سانحہ میں ڈوبنے والے زیادہ تر نوجوانوں کا تعلق بھی آزاد کشمیر کے علاقے سے تھا۔ ایسے علاقوں میں حکومت کو اپنا نیٹ ورک بنانا چاہئے تاکہ نوجوانوں اور ان کے خاندانوں کو باشعور بنائیں اور غیر قانونی طریقے ملک سے باہر بھیجنے کے گھنائونا کاروبار کرنے والوں پر زمین تنگ کی جاسکے۔ ملک گیر سطح پر ہنر سکھانے کا ایسا نیٹورک بنایا جائے جس سے غریب گھرانوں کے کم پڑھے لکھے نوجوانوں کو معاشی طور پر خود کفیل کیا جا سکے۔بینکوں سے لون لینے کی سکیم غریب گھرانوں کے نوجوانوں کے لیے نہیں ہوتی۔ ان کے لئے کوئی الگ سسٹم بنایا جائے جس کے ذریعے آسانی ترین انداز میں انہیں قرضے دیے جائیں۔ اگرچہ اس حکومت نے یوتھ کے لیے بنک لون کا ایک پروگرام شروع کیا ہے لیکن اس قرض کا حصول غریب نوجوانوں کیلیے آسان نہیں ہے ہمیں یہی خدشہ ہے کہ اس کو بھی وہ لوگ حاصل کر لیں گے جو سرے سے مستحق نہیں۔وزیر اعظم شہباز شریف نوجوانوں کو اپنی پہلی ترجیح بنائیں۔ملک کی تمام پالیسیوں میں نوجوانوں کو کلیدی سٹیک ہولڈرز کے طور پر دیکھا جائے اور ہر طرح کی پالیسیوں میں کم پڑھے لکھے، کم وسیلہ گھروں کے نوجوانوں پر فوکس کیا جائے۔یاد رکھیں نوجوانوں کے خوابوں کو بچانا پاکستان کو بچانے کے مترادف ہے۔ ٭٭٭٭٭