سرمد خان کرتار پور اور ننکانہ صاحب جانا چاہتے تھے۔ ہمارے پاس ایک روز تھا۔ اس دوران دونوں جگہ جانا بڑا چیلنج تھا۔ میں آٹھ سال پہلے کرتار پور گیا تھا۔ اس وقت پرانی عمارت تھی ‘اردگرد کھیت تھے۔ اس بار نئی عمارت اور سخت سکیورٹی کا نظام۔ ناشتہ کرکے 10 بجے گھر سے نکلے۔ صابر بخاری میری طرف آ گئے تھے جبکہ عامر خاکوانی کو راستے سے لینا تھا۔ خیابان امین کے پاس رنگ روڈ پر آئے۔ ساتھیوں کا خیال تھا کہ واپڈا ٹائون ایدھی روڈ سے ہمیں موٹروے پر جانا چاہیے تھا۔ خیر پینتیس چالیس منٹ میں ہم شاہدرہ سے پہلے سیالکوٹ موٹروے پر ہو لیے۔ تھوڑا آگے جا کر نارووال مریدکے روڈ پر اترے۔ کچھ سال قبل تک دفتری ذمہ داریوں کے سلسلے میں اکثر چھوٹے بڑے شہروں میں جانا ہوتا۔اس سے مجھے کھلے اور دور دراز علاقوں کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ سڑک کی چوڑائی کم ہوگئی تھی لیکن درمیان میں ڈیوائڈر موجود تھا۔ پہلے لب سڑک امرود کے باغات آئے۔ باغبان چھابڑیوں میں امرود سجائے بیٹھے تھے۔ چھائوں کے لیے لکڑی کے ستون بنا کر اوپر گھاس کی چھت ڈال رکھی تھی۔ بارش اور آندھی میں یہ انتظام ناکافی ہوتا ہے۔ تاہم دھوپ سے بچا لیتا ہے۔ پنجاب کے دیہات میں یہ چھپر صدیوں سے موجود رہے ہیں۔ میرے دادا جی نے بھی اپنے باغ میں ایک ایسی کٹیا بنا رکھی تھی جس کا کوئی کواڑ نہ تھا۔ نارووال مریدکے روڈ پر آدھا گھنٹہ سفر کیا ہو گا کہ پیاس کا احساس ہونے لگا۔ سب کے پاس پانی کی بوتلیں تھیں لیکن یہ پیاس کچھ اور طرح کی تھی۔ شاید سڑک کنارے سردائی کی ریڑھی دیکھ کر دل مچل اٹھا تھا۔ میں نے سردائی کا نام لیا تو صابر نے فوراً ایک دوست کو فون کیا جس کا ڈیرہ بالکل اس مقام پر تھا جہاں سے ہم گزر رہے تھے۔ خیر وسیم جٹ فرانس میں تھا لیکن اس نے ڈیرہ پر رکنے کو کہا۔ گاڑی نے یوٹرن لیا اور ایک کلومیٹر پیچھے آ کر ایک وسیع احاطے میں روک دی۔ ڈیرے کا اے سی آن کردیا گیا تھا۔ صابر نے وسیم جٹ کے بھیجیاٹنڈنٹ کو سردائی کا کہہ دیا۔ سرمد خان کے لیے یہ نیا نام تھا۔ میں جو بچپن سے سردائی کے جزا اور ذائقے سے آشنا تھا‘ انہیں بتا رہا تھا کہ خشخاش‘ بادام‘ چھوٹی الائچی‘ حسب ذائقہ چینی اور دودھ ملا کر یہ مشروب بناتے ہیں جو لوگ دودھ نہیں ڈالتے وہ سادہ پانی ڈال لیتے ہیں۔ تصور کہیں دور لے گیا۔ ایک سادہ دل بچہ جسے خاندان کے بزرگ اللہ لوک سمجھتے تھے کیونکہ وہ نہ شرارت کرتا نہ زیادہ بات چیت۔ مٹی کی پکی ہوئی دوری (کونڈی)، ایک کٹوری میں خشخاش پانی میں بھگوئی رکھی ہے، دوسری میں رات سے بادام پانی میں پڑے ہیں۔ تیسری کٹوری میں دودھ ہوتا۔ ایک کپڑے میں سبز رنگ کے خشک پتے۔ بعد میں پتہ چلا یہ بھنگ تھی۔ میرا کام دوری کو دونوں ہاتھوں سے تھامے رکھنا تھا۔ لکڑی کا دستہ پہلے خشخاش کو باریک ملیدہ بناتا‘ پھر اس میں بادام گھوٹے جاتے۔ آخر میں چند چٹکی بھنگ اور الائچی۔ اس مرکب کو پانی میں حل کیا جاتا۔ دوسرے برتن کے منہ پر صاف ململ کا ٹکڑا بطور چھلنی رکھ دیا جاتا۔ محلول اس چھلنی پر گرتا اور نیچے مشروب کی صورت جمع ہو جاتا۔ بابا جی چھلنی کے اوپر جمع پھوک کو کپڑے میں لپیٹ کر بل دیتے تو اس میں بچا ہوا جوس بھی نکل آتا۔ مجھے کھلے منہ والی آدھی پیالی بس ملتی۔ برف‘ دودھ اور چینی اس کو لاجواب بنا دیتے۔ یہ پنجاب اور سندھ کا عام روایتی مشروب تھا۔ لسی اور سردائی زراعت پیشہ دیسی معاشرے کی نشانیاں ہیں۔ لسی تو اب پیکنگ میں ملنے لگی ہے لیکن سردائی کا رواج کم ہوتا جارہا ہے۔ سردائی دراصل اجتماعی مشروب ہے۔یہ اکیلے پینا لطف نہیں دیتا۔ پنجاب میں لسی بنانا گھر کی عورتوں کا کام تھا۔ عموماً بزرگ خاتون یہ کام کرتی کیونکہ وہ گوبر کے اپلے تھاپنے اور کھیتوں میں کام بہوئوں اور بیٹیوں کے سپرد کر چکی ہوتی۔ لسی بلونے کا وقت فجر کی نماز پڑھنے سے پہلے ہوتا۔ لسی کے ساتھ روٹی کھائی جا سکتی ہے۔ لسی چاولوں پر ڈالی جاتی ہے۔ سردائی پہلوان پیتے ہیں‘ یہ ڈیروں پر تیار ہوتی اور نوجوان طاقت کے مشروب کے طور پر غناغٹ پیتے۔ فقیروں اور درویشوں کے ہاں سردائی میں بھنگ کی مقدار بڑھا دی جاتی۔ یہ سفید کی بجائے سبز رنگ کی ہو جاتی۔اسے ساوی بھی کہتے ہیں۔کچھ لوگ سُکھا پکارتے ہیں۔ پنجاب کا تیسرا مشروب دیسی شراب ہے۔ شراب صرف بگڑے مزاج کے لوگ استعمال نہیں کرتے کئی نستعلیق اور دانشور مزاج کے لوگ بھی اس کا استعمال کرتے ہیں۔ تاہم شراب کی ممانعت کے باعث یہ لسی اور سردائی سے مقابلے سے باہر ہو گئی۔ سرمد خان سردائی کا ٹھنڈا گلاس ہاتھ میں لے کر معصوم بچوں کی طرخ خوش تھے۔ گھر سے نکلتے دیر ہوئی۔ کچھ دیر وسیم جٹ کے ڈیرے پر ہو گئی۔ خیر سڑک کے دونوں طرف دھان کی فصل نے سبز قالین بچھا رکھا تھا۔ اس علاقے کی اچھی بات یہ ہے کہ یہاں لوگوں نے دیہات اٹھا کر سڑکوں کے کنارے آباد نہیں کئے بلکہ سڑک سے ایک راستہ کلومیٹر‘ آدھا کلومیٹر دور واقع گائوں تک جاتا ہے۔ اس سے سڑکیں قدرتی حسن میں اضفہ کرتی ہیں اور آبادی کی گندگی راستے کو متاثر نہیں کرتی۔ سڑک کے دونوں طرف ایستادہ درختوں اور جھاڑیوں سے میں آگاہ کر رہا تھا۔ جونہی ہم نارووال شہر کے گول چکر سے کرتار پور جانے والی سڑک پر مڑے ہریالی پہلے سے بڑھ گئی۔ میں نے گاڑی میں دھان کے ساتھ ایک اور باس محسوس کی۔ باہر دیکھا تو سڑک کے کنارے قد آدم سے کچھ کم بھنگ کی جھاڑیاں تھیں۔ سرمد کو بھنگ کے پودے دیکھنے کا شوق تھا۔ گاڑی روکی گئی اور انہوں نے اساطیری کہانیوں کے کردار ان پودوں کی تصاویر بنائیں۔ بھنگ بھنگ دا پیالہ مینو بھنگ چڑھ گئی شاوا گلابیا ہور بھنگ پی لاہور میں یہ بھی مشہور ہے: جے توں پینا ہووے بھنگ دا پیالہ صفانوالے چوک چوں لنگ بابا رنگیا تیرے رنگ (جاری ہے)