ایک زمانہ تھا جب الحاد اور انکارِ خداوندی کا درس سیکولر، لبرل اور جمہوریت پسندوں کے ہاں سے نہیں بلکہ اشتراکی کیمونسٹوں اور مزدوروں کی آمریت پر یقین رکھنے والے دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں کے ہاں سے ملتا تھا۔ اشتراکیت پرست ادیبوں کا یہ گروہ جو برصغیر میں انجمنِ ترقی پسند مصنّفین کے طور پر منظم ہوا اور کئی دہائیوں تک ادب کی دنیا پر اس کا پھریرا لہراتا رہا۔ اخترالایمان سے ساحر لدھیانوی، سجاد ظہیر سے فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی سے ظہیر کاشمیری تک تقریباً ہر بڑا ادیب و شاعر اس گروہ کی خوشہ چینی ضرور کرتا تھا۔ جو نہیں کرتا تھا اسے یہ لوگ اس قدر مطعون کرتے، اتنی کردار کشی کرتے کہ اس کیلئے ادیبوں شاعروں کی محفل میں اُٹھنا بیٹھنا مشکل ہو جاتا۔ ان دانشوروں کے اس ’’معاشرتی تشدد‘‘ کا شکار ہونے والوں میں اہم ترین نام مشہور افسانہ نگار انتظار حسین کا بھی تھا، کہ اس کا محفلوں میں بیٹھنا مشکل کر دیا گیا تھا۔ مزدوروں کی آمریت کی نفاذ کے علمبردار یہ تمام لوگ جمہوریت، الیکشن، سیاسی پارٹی بازی یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق و حقوقِ نسواں جیسے تصورات کو بھی سرمایہ دارانہ سازش قرار دیتے اور ان سے نفرت کرتے۔ کارل مارکس کے جدلیاتی فلسفے کے اس فقرے کہ ’’مذہب ایک افیون ہے‘‘ پر یقینِ کامل رکھتے اور لوگوں کو اپنے قریب لانے کیلئے دو کتابیں ضرور دیتے، ایک علامہ نیاز فتح پوری کی ’’من و یزداں‘‘ جو انسان کو ملحد بنانے میں ممدومعاون ہوتی۔ میرے الحاد کا سفر بھی اسی کتاب کے مطالعے سے شروع ہوا تھا۔ جبکہ دوسری کتاب ’’انسان بڑا کیسے بنا‘‘ جسے دو مصنّفین ایلین اور سیگال نے تحریر کیا تھا۔ یہ کتاب ڈارون کی تھیوری کی بنیاد پر لکھی گئی ہے جس کے مطابق انسان بندر سے ترقی کرتا ہوا موجودہ شکل تک آیا ہے۔ ظہیر کاشمیری کے اس شعر کی طرح کے لاتعداد اشعار، نظمیں، افسانے اور ناول تحریر کئے جا رہے تھے جو ’’انسان عظیم ہے خدایا‘‘ کے فلسفہ پر مبنی تھے۔ ظہیر کاشمیری کا یہ شعر کس قدر ملحدانہ انکارِ خداوندی کا اعلان ہے:۔ آسمانوں سے اُترتی ہے نبوت نہ کتاب آسمانوں میں اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں ان اشتراکیوں کا دامن بڑے عالمی فلسفے سے خالی تھا، اسی لئے یہ انقلابِ فرانس کے اردگرد جنم لینے والی مغربی تہذیب کے بڑے بڑے فلسفیوں پر ہی بھروسہ کرتے اور روسو سے والٹیئر اور ہیگل سے سارتر تک کے بے شمار فلسفیوں کو اپنی الحاد پرستی کی بنیاد کیلئے استعمال کرتے۔ سارتر ان کا پسندیدہ ادیب تھا، کیونکہ اس کا فلسفۂ وجودیت صرف سامنے موجود افراد اور اشیاء کو ہی حقیقت سمجھتا ہے۔ مثلاً آپ لاہور میں بیٹھ کر یہ دعویٰ کریں کہ کراچی میں آپ کا گھر ہے مگر اسی لمحے وہ گھر آگ سے جل کر راکھ ہو چکا ہو۔ اسی فلسفہ کی وجہ سے سارتر نے ایک خاتون سائمن ڈی بواء (Simone de Beauvoir) کے ساتھ پوری زندگی گزار دی، اس سے شادی نہیں کی اور نہ ہی اسے بیوی کہا، کیونکہ اس کے مطابق وہ یہ دعویٰ اتنی دیر تک ہی کر سکتا ہے جب تک وہ بیوی اس کے سامنے موجود ہے، عین ممکن ہے وہ اس کی نظروں سے دُور ہو کر اس سے بے وفائی کی مرتکب ہو رہی، اب ایسی عورت کے بارے میں کیسے دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اس کی بیوی ہے۔ خواتین کے حقوق کے معاملے میں بواء کی کتاب "Second Sex" (دوسری جنس) اس دور میں بہت مقبول تھی۔ تحریر اسقدر مبہوت کر دینے والی تھی کہ آدمی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ میرے زمانۂ الحاد میں تکیے کے قریب رکھی رہنے والی چند کتابوں میں سے ایک یہ بھی تھی۔ لیکن جیسے ہی سید ابوالاعلیٰ مودودی کی کتاب ’’تنقیحات‘‘ کے مضامین نے میرے الحاد کی عمارت کو پاش پاش کرنا شروع کیا تو میری ہدایت کیلئے اللہ نے جو دوسری کتاب مطالعے کیلئے نصیب کی، وہ مریم جمیلہ کی کتاب "Western Civilization Condemned by it self" (تہذیبِ مغرب خود اپنی ملامت میں) تھی۔ دو حصوں میں شائع ہونے والی اس کتاب کے اکتیس مضامین مغرب کے اکتیس بڑے گمراہ کن فلسفیوں یا تصورات کے بارے میں ہیں، جن میں فرائڈر ڈارون، مارکس ہیگل، مالتھس وغیرہ شامل ہیں، جبکہ بتیسواں باب اسلام۔ واحد حل "Islam It only Solution" کے نام سے ہے۔ کتاب کا نواں باب سائمن ڈی بواء کی اسی کتاب کے بارے میں تھا، جسے میں نے سب سے پہلے پڑھا۔ سولہ سال کی عمر، نظریاتی کشمکش کا بحران، ایسے لگا جیسے دماغ میں پٹاخے چل رہے ہوں، بار بار پڑھا تو یوں لگا جیسے کسی نے ذہن پر پڑے جالوں کو صاف کر دیا ہو۔ اس کے بعد اس کتاب کے ایک ہزار صفحات ایسے ذہن پر اُترے جیسے کوئی الہام ہوتا ہے۔ میری یہ محسنہ مریم جمیلہ اور مجھ میں ایک قدر مشترک بھی ہے۔ میرے الحاد کا تاریک سفر سید مودودی کی تحریروں سے ختم ہوا تھا اور مریم جمیلہ جو کہ نیو یارک کے ایک ایسے یہودی گھرانے میں پیدا ہوئی تھی جو مذہب سے بیگانہ اور سیکولر زندگی گزار رہا تھا، اس کا اسلام تک کا سفر بھی سید مودودی، کے ساتھ خط و کتابت کے ذریعے طے ہوا۔ خط و کتابت کے بعد یہ امیر ترین یہودی گھرانے کی بچی، جس کا والدین نے نام مارگریٹ رکھا تھا، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان آ گئی۔ مولانا مودودی کے ہاتھ پر 24 مئی 1961ء کے دن قبولِ اسلام کیا، مولانا نے مریم جمیلہ نام رکھا اور اس کا نکاح ایک انتہائی وجیہہ اور خوبصورت انسان یوسف خان سے پڑھایا جو کہ نہ صرف سنت نگر کے ڈیڑھ مرلے کے مکان میں رہتا تھا، بلکہ اس کی پہلے سے ایک بیوی بھی موجود تھی۔ مریم جمیلہ نکاح کے بعد اکیاون سال اس گھر میں رہیں اور وصیت کے مطابق اپنی سوکن کے پہلو میں دفن ہوئیں۔ انہوں نے اس دوران تیس لازوال کتابیں تحریر کیں۔ یہ کتابیں نہیں علم کے وہ روشن مینار ہیں جن کی روشنی سے مغربی تہذیب کی غلاظت، دو رنگی اور کراہت کھل کر سامنے آتی ہے۔ یہ عظیم عورت جس نے اس مملکت خداداد پاکستان میں اکیاون سال گزار کر اسے علم کا خزانہ عطا کیا، آج شاید اسے کوئی جانتا تک نہ ہو جبکہ اس کے برعکس اسکے ان خطوط سے متاثر ہو کر جو اس نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے والدین کو لکھے تھے، نیویارک کی ایک خاتون ڈبیرا بیکر پاکستان آئی اور ساڑھے تین سال کی محنت کے بعد اس نے مریم جمیلہ کی سوانح عمری "A Convert: A Fable of Islam and America" تحریر کی۔ مریم جمیلہ کی کتابوں میں سے بہت کم اب دستیاب ہیں، حالانکہ ان تمام کتابوں کی جدید دور میں الحاد اور مغربی تہذیب کے فتنوں کا تشفی اور تسلی بخش جواب دینے کیلئے انتہائی ضرورت ہے۔ چند دن پہلے ان کا بیٹا عمر فاروق خان اور پوتا مومن میرے پاس تشریف لائے۔ ان کا آنا ہی میرے لئے شرف کا باعث تھا کہ ساتھ وہ مریم جمیلہ کی دو کتابیں بھی لے کر آئے جسے انہوں نے خود شائع کیا تھا۔یوں لگتا ہے کہ مریم جمیلہ نے دونوں کتب آج اکیسویں صدی کے سب سے بڑے مذہبی اور تہذیبی حملے کے خلاف کئی سال پہلے ہی تحریر کر دی تھیں۔ یہ دونوں کتابیں "Islam and Modernism" اور "Islam and Western Society" ہیں۔ ان کتابوں کا مطالعہ آپ کو تہذیب مغرب کی مصنوعی چکا چوند کی حقیقت بتانے اور اس کے اصل کریہہ چہرے سے پردہ ہٹانے کیلئے کافی ہے۔ فلسفیانہ موشگافیوں سے لے کر سماجی اور خاندانی زندگی تک کوئی ایک سوال بھی ایسا نہیں جو آج کے نوجوان کے ذہن میں پیدا ہوتا ہو اور اس سوال کا جواب مریم جمیلہ نے ان کتب میں نہ دیا ہو۔ مجھے کتابیں پڑھتے ہوئے اندازہ ہی نہیں ہونے پایا کہ کتابیں بیٹے نے عسرت کی وجہ سے عام سے کاغذ پر شائع کی ہیں اور ٹائپ وغیرہ بھی شاید پرانی کتب والی ہے، جس کی وجہ سے یہ اتنی خوبصورت دکھائی نہیں دیتیں۔کاش! کوئی پبلشر انہیں خوبصورت بنا کر چھاپتا اور کوئی دین کا درد رکھنے والا ان کتابوں کو یونیورسٹی کے طلبہ کیلئے لائبریریوں میں رکھواتا اور کوئی مترجم ان کا ترجمہ بھی کرتا۔ ویسے کتابیں ابھی تو عمر فاروق سے مل سکتی ہیں جس کے فون نمبر یہ ہیں:۔ 0321-4252366 اور 03351111042۔