راستہ میرے سامنے کھلے سبزمیدان میں لیٹا ہوا تھا۔ یہ سڑک نہیں تھی، کوئی خشتی سولنگ نہیں تھا۔ کسی نے اردگرد کی مٹی نکال کر اسے ہموار بھی نہیں بنایا تھا۔ گھاس سے بھرا ہوا سبز میدان۔ گھر کو آنے کے لئے سڑک استعمال کرتا تو ایک لمبا چکر کاٹنا پڑتا۔ فیروز پور روڈ سے چند سو فٹ آگے ذیلی سڑک پر چلتے، پھر چھوٹی سی گھاٹی اترتے ۔ یہ رستہ اس گھاٹی سے ہی شروع ہوتا تھا۔ پیدل چلنے والوں کا راستہ۔ کوئی ایک ڈیڑھ فٹ کی پٹی تھی جو انسانی قدموں کے تلے آ کر گھاس سے صاف ہو گئی تھی۔ لگ بھگ دو سو گز کی یہ پٹی صرف ہمارا گھر استعمال کرتا تھا۔ مجھے سکس ملین ڈالر مین کی طرح سلوموشن میں بھاگنا ہوتا تو اسی پٹی پر دوڑتا حالانکہ گھاس بھرا سارا میدان خالی پڑاتھا۔ جانے کیوں اور کیسے دماغ میں بیٹھا ہوا تھا کہ دوڑ صرف راستے پر ہونی چاہیے۔ چوکور میدان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچنے کے لئے یہ پٹی اس طرح بن گئی تھی کہ میدان دو تکونوں میں بٹ جاتا تھا۔ یہ میرے حافظے میں موجود پہلا نقش ہے۔ پنجابی میں اس طرح کی پٹی کو ’’ڈنڈی‘‘ کہتے ہیں۔اردو اور سنسکرت والے پگڈنڈی کہتے ہیں۔ ابا جی نے کسی کو راستہ بتانا ہوتا تو سڑک سے اتر کر ’’ڈنڈیو ڈنڈی‘‘ سیدھا آنے کا بتاتے۔اس چھوٹے سے راستے کا جغرافیہ اور نواح اتنے برس گزر جانے کے باوجود مجھے یاد ہے۔ گھاٹی سے اترتے تو بائیں ہاتھ ارنڈ کے پودوں کا ایک جھنڈ ہوتا۔ ارنڈ کے بیج پک جاتے تو انہیں کوٹ کر کسی طریقے سے گھر میں کپڑے دھونے والا صابن بنایا جاتا۔ ایک مٹی کی کنالی میں صابن پڑا رہتا۔ جھنڈ سے آگے ارنڈ کے پودے ایک دوسرے سے فاصلے پر ہونے لگتے۔ اس سے آگے ڈنڈی کے ساتھ ساتھ ’’ہرمل ‘‘کی ننھی مٹی سی جھاڑیاں ہوتیں۔ چار پانچ انچ کی جھاڑیوں کی بڑی تعظیم کرتا۔ زخموں کو جراثیم سے بچانے اور جلد مندمل کرنے کے لئے سبز ہرمل کی دھونی دینے کا رواج تھا۔ اس کے بعد یا شاید ساتھ ہی چھوٹے چھوٹے خربوزوں جیسے ’’ تمے‘‘ کے کانٹے دار پودے ہوتے۔ کچے تمے سبز رنگ کے ہوتے‘ پک جاتے تو پیلے رنگ کے ہو جاتے۔ درمیان میں دھاریاں نمایاں ہو جاتیں۔ بتایا گیا تھا کہ یہ زہر موہرا ہوتا ہے اس لئے اسے چکھنے کی کبھی جرات نہ کی۔ یہ ترچھا راستہ فطرت کو جاننے کی میری پہلی درس گاہ تھا۔ آدھا رستہ ختم ہوتا تو ساتھ والے رہائشی کوارٹروں کی اوٹ ختم ہو جاتی گھاس بھراصاف رستہ نسبتاً ہموار ہو جاتا۔ یہاں سے دوڑ لگاتے اور سامنے نظر آتے کوارٹر کے کھلے کواڑ سے راستہ تکتی امی نظر آتیں۔ مکان بدلا۔ سرکاری رہائش کے بعد ابا جی نے ذاتی مکان بنایا۔کوٹ لکھپت سٹیشن کے اندر سے گزر کر اتفاق فائونڈری کے گیٹ تک آتے۔ باتیں ہاتھ ٹاہلی کے ساتھ ٹھنڈے پانی کا کنواں تھا۔ کنویں کے آگے چھوٹی سی‘ صاف ستھری مسجد‘ سٹیشن کی سیڑھیوں سے اتر کر اتفاق فائونڈری کے گیٹ کی طرف جانے کی بجائے ہم دس بارہ فٹ کا شارٹ کٹ لے کر کنویں اور مسجد تک آتے اور پھر یہاں سے بائیں ہاتھ مڑ کر اتحاد کالونی پہنچ جاتے۔ کیا زمانہ تھا، ہائی سکول کا طالب علم تھا۔ اس سارے علاقے میں تب نکاسی آب کے لئے نالوں کی تعمیر‘ گلیوں میں بجلی کے کھمبے اور تاریں بچھانے اور گلیوں کو پختہ بنانے کا کام ہونے والا تھا۔ اردگرد آبادیاں نہیں بنی تھیں۔گھر کی چھت سے جنرل ہسپتال کی عقبی ٹینکی نظر آتی ۔ قینچی امر سدھو بس سٹاپ کو جانا ہوتا تو چند گلیاں چھوڑ کر ایک طویل شارٹ کٹ ترچھا راستہ موجود تھا۔ یہ سیٹھ عابد کی ملکیت علاقہ تھا۔ ایک بار سیٹھ عابد کے لوگوں نے اس طرف کا راستہ بند کرنے کی کوشش کی۔ ساری آبادی مزاحمت پر اتر آئی۔ آخر دس فٹ کا راستہ روکنے والی دیوار گرانا پڑی۔ راستے بھلا کون بند کر سکتا ہے۔ کئی چھوٹے رستے ایسے بھی یاد ہیں جو کھیتوں کے بیچوں بیچ بن جاتے۔ فصل کٹنے کے بعد کسان ہل چلاتا تو یہ ڈنڈیاں ختم ہو جاتیں۔ چند دن راہگیر کھیتوں کی پل صراط جیسی تنگ پگڈنڈیوں پر چلتے۔ پائوں پھسلتا تو کئی بار نیچے کھیت میں اتر جاتے۔ کسان زمین کو ہموار کرتا۔ وتر میں لاتا۔ بیج ڈالتا۔ جونہی وہ کھیت چھوڑتا لوگ منڈیروں کا راستہ چھوڑ کر کھیت کے درمیان میں ایک پگڈنڈی بنا لیتے۔ اس پر کوئی جھگڑا ہوتا نہ توتکار۔ ایسے راستے بنانے سے انسانوں کو آسانی ملتی‘ سب ایک دوسرے کی آسانی کا خیال کرتے۔ آپ نے کبھی پہاڑی پگڈنڈیاں دیکھی ہیں؟ پہاڑوں کے دامن سے لٹکتی ہوئیں۔ پہاڑ نے جہاں اجازت دی وہاں رستے نے قدم رکھنے کی جگہ بنا لی۔ بنجوسہ جھیل کے کنارے دو دن رہے۔ سڑک سے جھیل تک آنے کے لئے کوئی پانچ سو فٹ چلنے کے بعد ایک کم ڈھلوان کا رستہ بنایا گیا ہے۔ ہم دن کے وقت وہ پگڈنڈی استعمال کرتے جو ریسٹ ہائوس سے نکل کر سڑک پار کرتے ہی تھی، چھوٹا راستہ۔ بائیں طرف کئی طرح کی مقامی جھاڑیاں۔ ڈھلوان سے پندرہ فٹ کے قریب اترائی ایسی ہے کہ ایک بار پائوں اکھڑ جائیں تو پھر بھاگ کر نیچے اترنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ایک اور راستہ برسوں سے ذہن میں بیٹھا ہے۔ایبٹ آباد کے خیبر ہائوس میں۔ گلاب اور ڈیلیا کے پھولوں والے سبزہ زار کو پار کر کے ہم گھنے درختوں کی طرف چل پڑے۔ خامشیوں سے بھری پگڈنڈی ایک راز کی طرح آگے جا رہی تھی۔ راستہ صرف اتنا چوڑا جو کھیتوں کے منڈیر جتنا ہو۔ پتے ہمارے قدموں تلے بچھے ہیں‘ اردگرد ہرمل اور تمے کی جھاڑیاں تو نہیں لمبی لمبی ’’سر‘‘ گھاس ہے۔ دور ایک کمرہ ہے‘ ہشت پہلو۔ سب دیواریں شیشے کی ہیں۔ اندر والی جانب پردے۔ جب ضرورت ہو پردے کھینچ کر خلوت بنا لی۔ شیشے کے کمرے سے چند فٹ آگے پہاڑ ختم۔ایبٹ آباد شہر کی روشنیاں قدموں کے نیچے پھیلی ہوئیں۔ راستے ہمیشہ منزل تک لے جاتے ہیں لیکن سکھاتے وہی راستے ہیں جو انسان کو ایک بار گم کر دیں۔سبز میدانوں سے بھرے راستوں کی لکیر بھی شائد ہاتھ کی لکیروں جیسی ہوتی ہے،بھید بھری۔