بات اگر محض بلوچستان کے حقوق کی ہے تو اس کی سو فیصد تائید کی جانی چاہیے لیکن معاملہ اگر یہ ہے کہ حقوق کے نام پر قدم بڑھا کر دوسرا قدم پنجاب اور ریاست کی گردن پر رکھنا ہے تو پھر اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ بلوچستان کے مسائل پر اور وہاں کی محرومیوں پر ، میں نے مسلسل لکھا ہے۔ میرا تعلق تو بلوچستان سے نہیں ، پھر بھی لکھا ہے۔ حال ہی میں ، انتخابی قوانین کے حوالے سے میری کتاب شائع ہوئی تو اس کا ایک باب ہی یہی تھا کہ بلوچستان کو قومی دھارے سے کیوں کاٹ دیا گیا ہے۔ میں اکثر لکھتا اور بولتا ہوں کہ ہم کوئی ٹاک شو بلوچستان سے کیوں نہیں کرتے ، وہاں تعلیمی اور معاشی سہولیات کم کیوں ہیں ۔ میں نے دل کو بار ہا ٹٹول کر دیکھا ہے ، بلوچستان کے بارے میں محبت کے سوا کوئی جذبہ نہیں پایا۔ حالیہ لانگ مارچ کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا۔ میرے جیسوں کا موقف یہی تھا کہ اسلام آباد پر جتنا کسی اور کا حق ہے اتنا ہی بلوچستان کا ہے اور انہیں بھی دوسروں کی طرح یہاں آکر اپنی بات کہنے دی جانی چاہیے۔لیکن بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ کچھ اور پہلو بھی قابل غور ہیں۔ اس مارچ کے سوشل میڈیا پر موجود ممدوحین کا رویہ کچھ اور ہی کہانی سنا رہا ہے۔ کوئی اٹھتا ہے اور پنجاب کو گالی دینے لگتا ہے کہ اس نے میزبانی کا حق ادا نہیں کیا ، کوئی آتا ہے تو وہ ریاست کو اسرائیل سے ملاتے ہوئے اعلان کرتا ہے کہ فلسطین تو یہاں بر پا کر دیا گیا ہے اس لیے اب سے ہم فلسطینیوں کے حق میں نہیں لکھیں گے، مولانا تقی عثمانی صاحب کو ہدف بنا لیا گیا ہے کہ وہ فلسطین کی طرح یہاں کیوں نہیں بولتے۔ سوشل میڈیا کے جذباتی ماحول میں قوم پرستوں نے ماحول ایسا بنا دیا ہے جیسے ایک صوبے کے رہنے والے شہری اپنے وفاق سے حق نہ مانگ رہے ہوں بلکہ ایک ملک کسی دشمن ملک سے معاملہ کر رہے ہوں۔ اس عمل میں کچھ برہم نوجوان بھی شامل ہیں۔ بانوے کے ورلڈ کپ سے شروع ہونے والا عصری شعور اب رد عمل میں پاکستان ہی کی نہیں ’ مشرقی پاکستا ن ـ‘ کی بھی نئی شرح لکھ رہا ہے۔اور کوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا جہاں وہ اپنے حساب پورے نہ کر دے۔بلوچ کاررواں پنجاب میں داخل ہوا تو دہائی دی جانے لگی کہ تحریک انصاف کا تاثر زائل کرنے کے لیے نیا کردار میدان میں لا یا جا رہاہے تا کہ لوگ نئے ایشو کی طرف متوجہ ہو جائیں اور جب گرفتاریاں ہو گئیں تو یہی سوشل میڈیا پیجز دہائی دینے لگے کہ یہ تو بڑا ظلم ہو گیا اور اس ظلم پر جو خاموش ہے وہ کوفہ کا باشندہ ہے۔یہ محبتیں بلوچستان کے حقوق کے لیے نہیں ہیں ، بھائیوں کے نام پر لوگ یاروں کو رو رہے ہیں ۔ ورنہ یہ تو سامنے کی بات ہے کہ بلوچستان میں لاشے سڑک پر پڑے جناب وزیر اعظم کا انتظار کر رہے تھے اور عمران خان صاحب نے جانے سے انکار کر دیا تھا۔ پوسٹ ٹروتھ کے ایسے ماحول میں مشکل ضرور ہے لیکن یہ لازمی ہے کہ تصویر کے دوسرے رخ کو بھی سامنے رکھتے ہوئے ایک معروضی تجزیہ کیا جائے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ ہر معاملے میں پنجاب کو گالی دینا فیشن کیوں بنا لیا گیا ہے؟ پنجاب کے شعور اجتماعی نے تو مولانا ہدایت الرحمن کے مطالبات کا بھی ساتھ دیا ہے۔ یہاں کے نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر بالعموم بلوچستان کے حق میں لکھا ہے۔ لیکن یہ کیا رویہ ہے کہ پنجابیوں کو ہر وقت گالی دی جاتی رہے اور مطالبہ کیا جائے کہ پنجابی یہ گالی کھا کر بھی بد مزہ نہ ہو ں بلکہ ہر نئی گالی پر مست ملنگ ہو جائیں کہ واہ وا ہ بلوچا۔ جو قوم پرست اس وقت پنجاب کو گالیاں دے رہے ہیں کیا کبھی انہیں یہ توفیق ہو سکی کہ بلوچستان میں پنجابی مزدوروں کے قتل پر بھی کوئی حرف احتجاج بلند کر لیں۔پنجابیوں کے ہاں ایک عمومی خیر خواہی کا رویہ ہے لیکن قوم پرستوں کے ہا ں پنجاب کے لیے گالی نفرت اور حقارت کے سوا کچھ نہیں۔ حق کا معاملہ بھی توجہ طلب ہے۔ اگر تو بلوچستان وفاق کی ایک اکائی کے طور پر وفاق سے اپنا حق مانگتا ہے تو اس کا ساتھ دینا چاہیے اور یہ ان کا حق ہے ، کوئی احسان نہیں۔ لیکن اگر معاملہ یہ ہے کہ پاکستان کو دشمن سمجھتے ہوئے معاملہ کرنے کی کوشش کی جائے تو اس کی تائید ممکن ہی نہیں۔ بلوچستان میں وفاق کوئی منصوبہ شروع کرتا ہے تو اس میں بلوچستان کے جائز حقوق کے حصول کا مطالبہ بالکل برحق ہے لیکن اگر کوئی کہے کہ بلوچستان میں وفاق کو آنے کا کوئی حق نہیں تو یہ مطالبہ درست نہیں ہے۔گوادر میں بلوچستان کے باشندوں کے حقوق کا تحفظ بالکل درست مطالبہ ہے لیکن یہ کہنا کہ گوادر بلوچستان کا ہے اور یہاں وفاق کو کوئی حق ہی نہیں ، یہ درست بات نہیں۔صوبے اور ایک متوازی ریاست میں بہر حال فرق ہوتا ہے۔ کراچی کو دیکھ لیجیے ، اس شہر نے سب کو اپنے اندر سمویا ہے۔ قوم پرستوں کی طرح اگر کراچی بھی تمام غیر سندھیوں کو باہر نکال دے تو لاکھوں پشتون کہاں جائیں گے، جس شہر میں امکانات ہوتے ہیں آبادی وہاں کا رخ کرتی ہے۔ بلوچستان میںآبادی کم ہے اور رقبہ بہت زیادہ۔ پراجیکٹس آتے ہیں تو سہولیات ساتھ آتی ہیں۔ پھر یہ پراجیکٹس اپنے ساتھ آباد کار بھی لاتے ہیں ، اگر اصول یہ ہو کہ دوسرے صوبوں بالخصوص پنجاب سے کوئی آیا تو اس کی لاش ہی جائے گی اور ساتھ ہی شکوے کیے جائیں کہ ہم پیچھے رہ گئے تو یہ ایک غیر منطقی استدلال ہے۔ مسنگ پرسنز کا مسئلہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے ۔ بچیوں ، مائوں کا احتجاج دل کو لہو کر دیتا ہے۔ اس مسئلے کو حل ہونا چاہیے۔ یہ مطالبہ بالکل درست ہے کہ کسی پر الزام ہے تو عدالت میں لایا جائے ۔تاہم یہ بھی ذہن میں رہے کہ بلوچستان میں شورش کی وجہ مسنگ پرسنز نہیں بلکہ مسنگ پرسنز کی وجہ شورش ہے۔ ریاست کے خلاف یہ بغاوت تو 1948 سے جاری ہے اور اس میںافغانستان سمیت کئی ممالک نے سہولت کاری کی ہے۔ اس شورش کے عملی مظاہر ہمیں مسلح مزاحمتی گروہوں کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ بلوچستان لبریشن آرمی ، لشکر بلوچستان ، بلوچستان لبریشن یونائیٹڈ فرنٹ ، یہ لوگ کون ہیں؟ان کے ہاتھوں جو دھماکے ہوتے ہیں اورسکیورٹی فورسز کے نوجوان شہید ہوتے ہیں ان کا کیا قصور ہے؟ کیا ان شہدا کے ورثاء بھی ایک لانگ مارچ کریں گے تب جا کر معاشرہ اس سوال پر غور کرے گا؟ بلوچستان بین الاقوامی پراکسی کا میدان بن چکا ہے۔ حقوق کے مطالبات اگر وفاق کی ایک اکائی کے طور پر کیے جائیں گے تو سر آنکھوں پر، سارا ملک ان کے ساتھ کھڑا ہو گا ۔لیکن اگر پنجابی کو گالی دے کر ، نفرت پھیلا کر ، ریاست کے وجود کی نفی کر کے ، اس پراکسی کا ابلاغی مورچہ سنبھالا جائے گا تو پھر بہت سارے سوالات پیدا ہوں گے۔ بلوچستان کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ وفاق سے حق مانگنے اور وفاق کی نفی میں بہت فرق ہے۔ اسی طرح وفاق کو سمجھنا ہو گا کہ بہت سے زخموں پر بروقت مرہم نہ رکھا جائے تو وہ گھائو بن جاتے ہیں۔