تحریکیں پہلے افکار کی دنیا میں ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ پھر وہ عملی جدوجہد کا روپ اختیار کرتی ہیں۔ جب کسی مسئلے کے بارے میں طرح طرح کے خیالات سامنے آتے ہیں، اہلِ نظر کی آراء جلوہ گر ہوتی ہیں تو پھر آہستہ آہستہ نشانِ منزل بھی واضح ہونے لگتا ہے۔23مارچ 1940ء کے دن بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھاکہ نشان منزل سب پر واضح ہو گیا مگر منزل ملنے کے بعد سب کچھ ویسانہیں ہوا جیسا سوچا گیا تھا۔ بلکہ سمت کا تعین کرنیوالوں نے اس قوم کو ہی گہرے گڑھوں میں ڈال دیاکہ اس قوم میں احساس ہی ختم ہوگیا۔ لہٰذا ایک اور یومِ پاکستان کے موقع پر بھی ہم بحیثیت قوم کسی سمت کے احساس کے بغیر ہی رہ رہے ہیں اور اندھیرے میں قومی شناخت کے تعین اور پاکستان کی نسلی و لسانی اعتبار سے متنوع آبادی کیلئے ایک سیاسی نظام وضع کرنے کی غیر یقینی جدوجہد میں مصروف ہیں۔آزادی کے بعد 7 دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود ہم ایک قوم کی حیثیت میں اور قوموں کے اتحاد کے رکن کی حیثیت سے کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہم ایک جمہوری اور ترقی پسند پاکستان میں رہ رہے ہیں‘ ویسا پاکستان جیسا اس کے بانی قائداعظم نے تصور کیا تھا؟ کیا ہم پاکستان کو اندرونی طاقت‘ سیاسی استحکام‘ معاشی خود انحصاری‘ سماجی ہم آہنگی اور قومی اتحاد کا گڑھ بنانے میں کامیاب رہے ہیں؟ یہ تکلیف دہ سوالات ہیں‘ اور ان سوالوں کے جوابات بھی کم تکلیف دہ نہیں ہیں۔ قیام ِپاکستان کے بعد قائداعظم زیادہ عرصہ زندہ نہ رہے کہ ملک کے معاملات کو ذاتی طور پر آگے چلاتے اور اسے وہ بناتے جو وہ بنانا چاہتے تھے۔ ان کے جلد انتقال فرما جانے سے پاکستان بچپن میں ہی یتیم ہوگیااور ایک صحت مند جوانی اور منظم قدرتی نشوونما کا موقع کھو بیٹھا۔ قائد کے بعد یہ سیاسی دیوالیہ پن اور اخلاقی کسمپرسی کی حالت میں چلا گیا۔ چوتھائی صدی سے بھی کم عرصے میں اس نے اپنا نصف حصہ کھو دیا۔ محض نصف حصہ ہی نہیں بلکہ وہ عقلی وجوہ بھی جنہوں نے اس کے بانی آبا کو برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ وطن کے قیام کی جدوجہد پر آمادہ کیا تھا۔ اصل پاکستان افسوسناک شکست کے ساتھ غائب ہو گیا‘ اور اب جو کچھ باقی ہے وہ صرف ایک نعرے ’’پاکستان کھپے‘‘ کے پتلے دھاگے سے لٹکا ہوا ہے۔یہ کتنا بڑا المیہ اور ستم ظریفی ہے کہ ایک ایسا ملک‘ جو اپنے قیام کے وقت ’’20ویں صدی کا معجزہ‘‘ تصور کیا جاتا تھا اور جس نے مکمل طور پر جمہوری اور آئینی جدوجہد کے ذریعے کامیابی حاصل کی تھی‘ اب خود ہی قابلِ رحم حالت میں جمہوریت اور آئینی برتری اور دنیا کے پرامن ممالک کی صف میں مقام پانے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ نظام کی کمزوریوں کو دور کرنے اور ہماری قومیت کے متحد کرنیوالے عناصر کو تقویت دینے کے بجائے‘ پاکستان میں غالب جاگیردارانہ‘ قبائلی اور اشرافیہ کے طبقات اقتدار کے ڈھانچے میں اتنی گہرائی تک داخل ہو چکے تھے کہ انہوں نے نظام میں ایسی کوئی تبدیلی رونما نہ ہو نے دی۔ یہاں تک کہ ’’منتخب‘‘ رہنماؤں کی حیثیت سے بھی انہوں نے کبھی ایسی جمہوری ریاست بنانے کی امید پیدا نہیں کی جو پاکستان کے تمام عوام کو بلا امتیاز معاشرتی و معاشی انصاف‘ قانون کی حکمرانی اور منصفانہ انتظامیہ فراہم کر سکے۔ وہ اپنے استحقاق پر مبنی ’’سٹیٹس کو‘‘ میں ہی مست رہے۔ اس سارے عمل کے دوران ملک بدعنوان سیاسی خاندانوں کے ان چند افراد کا یرغمال بنا رہا جو نسل‘ مذہب‘ زبان اور ثقافت کے نام پر لوگوں کا استحصال کرنے میں ماہر ہیں۔ ان کے نزدیک انتخابات بولی لگانے کے میلے سے زیادہ نہیں ہیں‘ جس میں صرف بڑی تجوریوں والے ہی ووٹ حاصل کر سکتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس کھیل کا واحد عنوان کرپشن ہے۔ وہ جمہوریت کے نام پر وہ کام کر رہے ہیں جس کا تجربہ دنیا کے کسی اور ملک نے کبھی نہیں کیا ہو گا۔انہوں نے ملک کو گروہی اور لسانی وجودوں میں تقسیم کر دیا جبکہ ہم آہنگی اور قومی اتحاد کی کوئی رمق باقی نہ رہی۔ ہم شاید دنیا کا واحد ملک ہیں جس میں صوبے نسل اور زبان کی بنیادوں پر مبنی ہیں۔ دوسرے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے نظاموں کو دیکھیں تو ہم فیڈریشن کی ایک نادر مثال پیش کرتے ہیں۔ دنیا کے بیشتر بڑے اور درمیانے حجم کے ممالک انتظامی اکائیوں کے طور پر چھوٹے صوبوں یا ریاستوں میں منقسم ہیں۔ ہماری خاندانی اشرافیہ نے صوبائی سیٹ اپ کو صرف اپنی مجازی ریاستوں کے طور پر تشکیل دیا ہے جس پر وہ حکمرانی کرتے ہیں۔ قوم کو سنجیدگی کے ایک لمس کی اشد ضرورت ہے۔ محض دراڑیں بھر دینے سے کچھ نہ ہو گا‘ اس بیماری کا گہرائی تک علاج کرنے کی ضرورت ہے۔کیوں کہ نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تاریخی جدوجہد اور لاکھوں جانوں کے نذرانے دے کر حاصل ہونے والا پاکستان آج مسائل کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ چاروں طرف کرپشن اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔جس مادرِ وطن کیلئے قربانیاں دی گئیں، اسے مفاد پرست حکمرانوں نے کچھ ہی برسوں بعد دو لخت کر دیا۔طالع آزمائوں کی اقتدار کی ہوس نے مغربی پاکستان ہم سے جدا کر دیا۔لہٰذایہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہماری بطور قوم کیا کارکردگی رہی ہے؟ کیا ہم اْس معیار پر پورا اْترے جس معیار پر پاکستان حاصل کیا گیا تھا؟ بلکہ اس دن کے بارے میں تو یوں کہا جائے کہ یہ دن اپنی کھوئی ہوئی منزل کو دوبارہ حاصل کرنے کیلئے ازسرنو تعین کا یوم عہد ہے، یوم احتساب ہے کہ ہم نے یہ وطن جس مقصد کیلئے حاصل کیا تھا کیا ہم سب اس کیلئے کوشاں ہیں۔مگر آج اس کے برعکس جو آواز اْٹھاتا ہے، اْسے دبانے کے لیے پوری ریاستی مشینری متحرک ہوجاتی ہے، اس کیلئے ریاست کے ہر قانون کو اس کے سر پر رکھ کر پھوڑا جاتا ہے۔ اگر کوئی عوامی لیڈر کہتا ہے کہ الیکشن کروائو پھر دیکھتے ہیں کہ عوام کس کے ساتھ ہے، اْسے نااہل کرنے کے لیے چار سوزور لگایا جاتا ہے۔ اگر وہ پھر بھی ہار نہ مانے تو اْس کی ’’ایگو‘‘ کو ہٹ کیا جاتا ہے۔ غداری کے فتوے لگائے جاتے ہیں۔ بہرکیف آج کے پاکستان کو ایک بار پھر قومیتوں سے نکل کر ایک قوم بن کر دکھانا ہے۔ سچ اور حق کے حصول کا جذبہ رکھنے کا مظاہرہ کرنا ہے۔ پاکستان سے لگن میں اپنے اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر ثابت قدم رہنا ہو گا۔ پاکستانی قوم بن کر پاکستان کی حفاظت کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے دشمنوں کی میلی نظروں سے پاکستان کی طرف دیکھنے والی آنکھ کو جڑ سے نکالنا اور پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف انہیں عبرت کا نشان بنانا ہے۔ اس لئے آج 23 مارچ کا دن قوم کیلئے تجدید عہد کا دن ہے اور اس دن ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے آج تک جو دانستہ یا نادانستہ کوتاہیاں کی ہیں ان کا ازالہ کیسے کرنا ہے۔ آج پھر تحریک آزادی پاکستان جیسے جذبے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم درست وقت پر درست فیصلے لیں تو یقینا ہماری کایا پلٹ سکتی ہے۔