بنگلہ دیش پر کالم عام طور پر دسمبر میں لکھے جاتے ہیں، یہ کالم نگاروں کا اس موضوع پر لکھنے کا سیزن ہوتا ہے۔ہم اس سانحہ کے ذمہ داروں کی نشاندہی کرتے اور انہیں برا بھلا کہتے ہیں۔سیاسی تعصبات ہوں تو اپنی پسندیدہ شخصیات کو ہر الزام سے بچا لیتے ہیں۔کل پنجاب یونیورسٹی سکول آف کمیونیکیشن سٹڈیز میں معمول کا لیکچر تھا۔ایک طالب علم نے قائد اعظم اور قیام پاکستان کے متعلق ان شکوک کا سوال اٹھایا جو کچھ لوگ جستجو کے شائق طلبا کے دماغ میں انڈیل دیتے ہیں۔قائد کی تعلیمی ڈگریوں ، مالی کامیابی اور برق رفتار سیاسی مقبولیت سے متعلق سوال تھے جن کا جواب دیا۔ایسے سوال ہر اس زمانے میں قومی ہیروز اور پاکستان کے قیام کے بارے میں گردش کرنے لگتے ہیں جب جب پاکستان کے گرد کوئی سازشی منصوبہ بنا جا رہا ہو۔کہہ لیں ان کا بھی ایک سیزن ہوتا ہے۔آج کل بنگلہ دیش و بھارت کے تعلقات اور رام مندر کے افتتاح کے تناظر میں یہ سوال دیکھے جا رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کی پیدائش بھارت کے پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دینے سے ہوئی۔ ایک نئی قوم بنانے کی کوشش میں، بھارت نے ایک مسلم ریاست کے خلاف کام کیا،اچھی ہمسائیگی پر ضرب لگائی ، اخلاقی اقدار کو مجروح کیا اور نسلی تفاخر کو فروغ دیا۔ بنگالی زبان اور ثقافت سے محبت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا، جس سے شناخت کا بحران پیدا ہوا کیونکہ مغربی بنگال نو تشکیل شدہ بنگلہ دیش سے باہر رہا۔ اس ہیرا پھیری کے نشانات بدستور برقرار ہیں،بھارتی رہنما آج بھی لوگوں میں عدم اطمینان کے بیج بو رہے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی چند سال قبل بھارت گئے، وہاں کی وزیر اعظم حسینہ واجد کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی ۔نشستوں کے عقب میں وہ تصویر آویزاں کی گئی جس کو دیکھ کر پاکستانی صدمے کا شکار ہو جاتے ہیں، بھارتی وزیر اعظم نے اعتراف کیا کہ ان کے ملک اور خود انہوں نے ایک نچلے درجے کے کارکن کے طور پر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے لئے کام کیا۔ چند ہفتے قبل بنگلہ دیش میں عام انتخابات ہوئے ہیں۔ آج جب ایک سیاسی جماعت آمریت اور انتخابی دھاندلی کے ذریعے اپنی گرفت مضبوط کر رہی ہے،سیاسی مخالفین کو دبایا جا رہا ہے۔بنگلہ دیش نیشنل پارٹی نے انتخابی دھاندلیوں کا سلسلہ نہ رکنے پر الیکشن پر تحفظات ظاہر کئے اور بعد ازاں بائیکاٹ کا اعلان کیا۔دوسری بڑی اپوزیشن جماعت جماعت اسلامی نے بھی عدم اعتماد کیا۔ اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ بنگلہ دیش میں جمہوری قدروں کو پامال کیا جا رہا ہے۔بھارتی قیادت بنگلہ دیش کو اپنی کالونی بنانے کا منصوبہ آگے بڑھا رہی ہے۔بنگلہ دیش کے عوام جن انتخابات کے نتائج تسلیم نہیں کر رہے مودی حکومت ان دھاندلی زدہ انتخابات کو جائز قرار دے رہی ہے۔عوامی لیگ پر الزام ہے کہ وہ بنگلہ دیش کو بھارت کی کالونی بنانے کے لئے مودی حکومت کے ساتھ ملی بھگت کر رہی ہے،اس وجہ سے عوام میں غصہ بھڑک رہا ہے۔ حالیہ انتخابات کے نتائج کے فوراً بعد محترمہ حسینہ واجد نے اپنے "قابل اعتماد دوست" بھارت سے اظہار تشکر کیا، جب کہ وزیر اعظم نریندر مودی بنگلہ دیشی رہنما کو مبارکباد دینے والے پہلے عالمی رہنماؤں میں شامل تھے۔ اس خیر سگالی نے دونوں کے باہمی تعلقات کوگہرا بنانے کے لیے نئی دہلی کے ارادوں کو بے نقابکیا۔ بھارتی میڈیا اسے شراکت داری اور جنوبی ایشیائی پڑوسیوں کے درمیان قریبی دو طرفہ تعلقات قرار دے رہا ہے۔ بھارت حسینہ واجد کی موجودگی میں بنگلہ دیش کو خطے میں ایک اہم اتحادی تصور کرتا ہے۔ نریندر مودی انڈو پیسفک میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے اور ایک دوستانہ و مستحکم پڑوس استوار کرنے کے لیے اپنی 'ایکٹ ایسٹ' پالیسی کے مطابق عوامی لیگ کی حکومت کے ساتھ اپنے مفادات کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ بھارت عوامی لیگ کی فتح سے فائدہ اٹھا رہا ہے، اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ حزب اختلاف کی رہنما اور سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاء نے بھارت کے ساتھ حسینہ حکومت کے تعلقات پر تنقیدی آواز اٹھائی ہے۔بھارت کے ساتھ کثیرالجہتی تعاون پر محترمہ حسینہ واجد کا اصرار اور موجودہ بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ ان کے دو طرفہ تعلقات بسا اوقات بنگلہ دیشی مسلمانوں، بھارت کی ریاست آسام میں مقیم بنگالیوں اور پاکستان کے مفادات کے لئے خطرہ بن جاتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان خارجہ پالیسی کی صف بندی روایتی اور نئے شعبوں میں تعاون بڑھانے کا وعدہ کرتی ہے،بنگلاہ دیشی عوام کو باور کرایا جا رہا ہے کہ حسینہ مودی تعلقات دونوں ممالک کے درمیان والے تنازعات کو طیکرنے کا موقع فراہم کریں گے۔ بھارت کی جانب سے ایک دوست بنگلہ دیش کی خواہش، شدید طور پر پاکستان مخالف ہے۔ یہ لوگوں کے اسلامی ثقافت اور بھائی چارے سے ہم آہنگ ہونے کے فطری رجحان سے متصادم ہے۔ حکومت کی بھارت نواز پالیسیوں پر سوال اٹھائے جاتے ہیں، خاص طور پر اس وقت جب بے گناہ مسلمانوں کو بھارت میں ہندو جنونیوں کے ہاتھوں بدسلوکی، حتیٰ کہ مارے جانے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بنگلہ دیشی اپوزیشن کا کہنا ہے کہ بھارت بنگلہ دیش کا کبھی سچا دوست نہیں رہا، بھارت اس کے سیاسی منظر نامے میں مداخلت اور انتخابات میں ہیرا پھیری کرتا ہے۔ بی این پی، جس کی جڑیں اسلامائزیشن میں ہیں ،وہ خارجہ پالیسی میں بھارت سے دور ہے، بی این پی بنگلہ دیش کی تقدیر کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرنے پربھارت کی مذمت کرتی ہے۔ اپوزیشن پارٹی پر دہشت گردی کے الزامات اور سختیاں 'انڈیا آؤٹ' تحریک کو ہوا دے رہے ہیں ۔ ’’بھارت بنگلہ دیش کا دوست نہیں ہے‘‘ جیسے نعرے پورے سوشل میڈیا پر گونجتے ہیں، جو بھارت مخالف جذبات کو بھڑکانے کا باعث ہیں۔ حکومت کے فیصلوں سے اختلاف کرنے پر غدار قرار دی جانے والی اپوزیشن عوام کے تحفظات کی نمائندگی کرتی نظر آتی ہے۔ طارق الرحمان پر ریاست مخالف سرگرمیوں کا الزام غیر ملکی مداخلت کے خلاف مزاحمت کی علامت بن جاتا ہے۔ بات واضح ہے ۔ بھارت کو اپنے چھوٹے پڑوسیوں، مالدیپ اور بنگلہ دیش کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کرنی چاہیے۔