آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے چین کے وزیر خارجہ سن ویڈونگ سے ملاقات میں دونوں دوست ممالک کے علاقائی امن،استحکام اور عوام کی خوشحالی کے مشترکہ مقاصد کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔جی ایچ کیو میں ملاقات کے موقع پر دفاع کے شعبے میں باہمی تعاون بڑھانے پر غور کیا گیا۔دوسری طرف ترجمان دفتر خارجہ نے پاک ایران تعلقات کی بحالی اور سفیر حضرات کی واپسی کا اعلان کیا ہے۔نگران وزیر خارجہ جلیل عباس کی دعوت پر ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبدالہیان انتیس جنوری کو پاکستان کا دورہ کریں گے۔چینی وزارت خارجہ نے پاکستان اور ایران کو اچھا دوست قرار دیتے ہوئے دونوں کے درمیان تعلقات کی بحالی کا خیر مقدم کیا۔ پاکستان بیک وقت کئی نوع کے چیلنجز سے نبرد آزما ہے۔دہشت گردی، معاشی بحالی،خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے اور سیاسی استحکام پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اسے علاقائی امن کے لئے بھی فعال کردار ادا کرنا ہے۔افغانستان سے امریکی انخلا کا معاملہ ہو یا دہشت گردی کے خلاف جنگ کا محاذ ہو ،پاکستان نے خطے میں دوست اور ہمسایہ ممالک کو بین الاقوامی کوششوں میں شریک رکھا۔روس ،ایران اور چین کے حوالے سے اگرچہ امریکہ کو تحفظات رہتے ہیں لیکن پاکستان نے ان ممالک کے ساتھ مل کر علاقائی امن کے لئے اقدامات کئے جنہیں بعد ازاں عالمی برادری نے سراہا۔ پاکستان 1960 کی دہائی سے پرامن خارجہ پالیسی کے نفاذ میں چینی تجربات میں شامل رہا ہے ۔ چین نے اسے ایک روشن مثال کے طور پر پیش کیا ہے ۔ چین کا ارد گرد کئی علاقائی نظاموں کی سیاست پر مشتمل ہے جیسا کہ جنوبی ایشیا، مشرقی ایشیا، وغیرہ ۔ چین شاذ و نادر ہی صرف ایک ریاست کو ذہن میں رکھ کر یا اس کے ساتھ تعلقات پر مضمرات کا محاسبہ کیے بغیر پالیسی بنا سکے۔چین کی سلامتی کی دلچسپی کا ایک حصہ باقی دنیا پر مشتمل ہے جس میںیورپ، مشرق وسطیٰ، افریقہ، جنوبی امریکہ وغیرہ شامل ہیں۔چین توانائی کے وسائل، اجناس، اور سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ مختلف امور پر سفارتی حمایت حاصل کر رہا ہے۔پاکستان کے ساتھ تعلق بیجنگ کے مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کے ساتھ روابط کی استواری کے لیے بھی موزوں رہا ہے۔ فی الحال بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت توانائی کے تحفظ کے لیے چین کی جستجو نے پاکستان کو اپنی جیو اکنامک اور جیو پولیٹیکل حکمت عملی کے مرکز میں رکھا ہے۔ دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان مبارکبادی پیغامات کا تبادلہ ہو، اعلیٰ سطحی استقبالیہ ہو یا صوبوں اور شہروں کے درمیان دوستی کے معاہدوں پر دستخط جیسی سرگرمیاں، نوجوانوں کا ویڈیو مقابلہ اور سیاسی، سفارتی، سمیت وسیع شعبوں کا احاطہ کرنے والے تبادلے ہوں۔ اقتصادی، ذیلی قومی، تعلیمی، سائنسی، ثقافتی اور صحت کے شعبے کی سرگرمیاں ہوں، عملی طور پر ان تقریبات نے باہمی اعتماد کو مضبوط کیا ہے۔ چین اور پاکستان کے سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد سے گزشتہ 7 دہائیوں کے دوران، بین الاقوامی حالات چاہے کیسے بھی رہے ہوں، دونوں ہمیشہ اچھے برے وقت میں شانہ بشانہ کھڑے رہے ہیں۔ چین اور پاکستان نے کورونا جیسے خطرات اور چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کیا ہے۔ سٹریٹجک تعاون نے باہمی اعتماد اور تزویراتی تعاون کو گہرا کیا ہے۔ تاریخ نے پوری طرح سے ثابت کیا ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے لیے سب سے قابل اعتماد دوست ہیں۔ دنیا نظر نہ آنے والی گہری تبدیلیوں سے گزر رہی ہے، دنیا بھر میں انتشار اور خطرات بڑھ گئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ایرانی سکیورٹی فورسز نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا۔جواب میں پاکستان نے ایرانی حدود میں موجود دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کی۔بہت سارے تجزیے پہلے ہی سامنے آچکے ہیں، جن میں پاکستان کے پاس موجود بے شمار امکانات پر تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے۔ برسوں سے ایران اور سعودی عرب کے ساتھ اپنے دوطرفہ تعلقات کو پائیدار طریقے سے بہتر بنانے پر پاکستان کی توجہ رہی ہے۔ ’’کوئی اپنے ہمسایوں کو نہیں بدل سکتا‘‘ کی بنیاد پر پاکستان ایران تعلقات میں بہتری کو اجاگر کیا جانا چاہئے۔ایران پہلا ملک تھا جس نے 1947 میں پاکستان کو تسلیم کیا، جس نے مستقبل کے تعلقات کی بنیاد رکھی۔ دونوں ممالک کے درمیان متعدد امور پر مفادات کا اشتراک ہے ۔ ان میں افغانستان کی صورتحال، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور چین کے ساتھ دوطرفہ تعلقات شامل ہیں لیکن یہ تعلق ان امور تک محدود نہیں۔ پاکستان اور ایران متعدد علاقائی اور بین الاقوامی پلیٹ فارمز کا حصہ ہیں جن میں اقتصادی تعاون تنظیم (ECO) اور اسلامی تعاون تنظیم (OIC) اور شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) میں ایران کی مکمل رکنیت دونوں ممالک کو اپنی بات چیت کو وسعت دینے کے قابل بنا سکتی ہے۔ دونوں کے درمیان موجودہ دوطرفہ تجارت 1.5 ارب ڈالر سالانہ ہے جو کہ سالانہ 5 ارب ڈالر کی صلاحیت سے کم ہے۔ 2023 میں 39 مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے تھے جن پر عمل درآمد ہونے کی صورت میں اس ہدف کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اپریل 2021 میں، 12 سرحدی بازاروں کی تجویز دی گئی تھی، جن میں سے صرف دوکام کر رہے ہیں۔ اس وقت ایران پاکستان کو 34.8 میگاواٹ بجلی برآمد کرتا ہے اور جون 2022 میں دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ایران 100 میگاواٹ اضافی بجلی فراہم کرے گا۔پاکستان اور اس کے ہمسایہ دوست ممالک کو باہمی تعلقات میں بہتری کے اقدامات کو معاشی، سفارتی اور دفاعی شعبوں میں متعارف کرنے پر توجہ دینا ہوگی تاکہ مشترکہ چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکے۔