قوم پگڈنڈیوں پہ چل نکلی اور ابھی تک بھٹکتی پھر رہی ہے۔منزل تو بعد کی بات ہے، یکسوئی کے بغیر راستے بھی روشن نہیں ہوا کرتے۔ علامہ شبیر احمد عثمانی نے قائدِ اعظم کو جب بیسویں صدی کا سب سے بڑا مسلمان کہا تو کیا وہ جذبات کا شکار تھے؟ اس پاکباز رہنما کی شخصیت کا ادراک رکھنے والے جانتے ہیں کہ وہ ہیجان کا شکار ہونے والے نہ تھے۔محمد علی جناح تاریخ کی ان نادرروزگار شخصیات میں سے ایک ہیں، ایک ایک لفظ جو سوچ سمجھ کر بولتے اور لکھتے تھے۔ جن کا سا ریاضت کیش اور صداقت شعار سیاست دانوں کی صف میں دور دور تک نظر نہیں آتا۔چرچل بڑے آدمی تھے، جنہوں نے برطانوی پارلیمنٹ میں ڈٹ کر پاکستان کی حمایت کی تھی۔ڈیگال بھی یکتا تھے۔ قوم نے ان کی آئینی تجاویز سے اتفاق نہ کیا توگھر لوٹ گئے؛حتیٰ کہ خلق ایک بار پھر ان کے دروازے پر پہنچی۔ ہم روزویلٹ کی دانائی کے قصے سنتے ہیں۔ان سب سے بہت پہلے ایک گہرے گداز کے حامل ابرہام لنکن کی داستان، اپنی قوم کی حد تک مہاتماگاندھی بھی، جن کی قوم نے اب ان کی جگہ جذبات فروش نریندر مودی کو اپنا لیا۔ کیا ان میں سے کسی سے قائدِ اعظم کا موازنہ کیا جا سکتاہے؟ زیادہ سے زیادہ ابرہام لنکن سے۔ اس لیے کہ اخلاقی عظمت کے معیار پر ہمیشہ وہ پورے اترے۔ امریکہ نے میکسیکو پر حملہ کیا تو انہوں نے سوال کیا تھا: کیا میکسیکو کی سرحد پر ایک بھی امریکی کا خون بہا ہے؟ اس پر ان کا مذاق اڑایا گیا لیکن آخر کار وہی تھے، جنہوں نے خانہ جنگی میں مبتلا امریکہ کو متحد کیا۔ کالوں کو آزادی بخشی اور یہ تاریخی جملہ کہا: آج جتنے کوڑے تم ان کی پیٹھوں پر برساؤ گے، کل اتنی ہی جانیں تمہیں نذر کرنا ہوں گی۔ آج بھی وہ امریکی تاریخ میں ایک لہکتا ہوا استعارہ ہیں۔ قائدِ اعظم کی عظمت کو ان کی قوم نے کم پہچانا۔تین ہزار برس پہلے بلاد ِ شام میں حضرتِ موسیٰؑ کے پیروکاروں کو جلاوطن کرنے والے بل طشتنر(بخت نصر) نے ایک خواب دیکھا۔ ملک بھر سے خواب کی تعبیر کرنے والوں کو اس نے جمع کیا۔ مطالبہ کیا کہ نہ صرف سپنے کی تعبیر بتائیں بلکہ سپنا بھی۔ وہ سب ہار گئے۔پروردگار کے حکم پر تب جناب دانیال علیہ السلام دربار میں پہنچے اور اسے بتایا: عالمِ رویا میں دیوار پر تم نے لکھا دیکھا: تمہیں تولا گیا مگر تم کم نکلے۔ قائدِ اعظم کے بعد سب رہنما کم نکلے۔ صرف جناح تھے، جن کی صداقت شعاری، امانت داری اور حسنِ تدبر پر کبھی سوال نہ اٹھایا گیا۔اس یکتا شاعر غالبؔ کی طرح وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی عظمت اور بھی اجاگر ہوتی گئی؛حتیٰ کہ حریف بھارت میں بھی۔ قائدِ اعظم تاریخ کے وسیع تر تناظر میں سوچتے۔ اپنے ہم عصر رہنماؤں کے برعکس ہیجان کا کبھی شکار نہ ہوتے۔ ایک سے زیادہ بار ارشاد کیا کہ فیصلہ کرنے سے پہلے سو بار سوچتا ہوں لیکن فیصلہ کر چکوں تو بدلتا کبھی نہیں۔ عشروں تک وہ ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوشاں رہے۔ جب جان لیا کہ ہندو مفادات کی نگہبان کانگریسی قیادت میں کھوٹ ہے تو مسلمانوں کے الگ وطن کا مطالبہ کیا۔ یہ لاہور میں 23مارچ 1940ء کا منٹو پارک تھا۔سات سال میں پاکستان کی تخلیق کا معجزہ کر دکھایا۔نام نہاد نیشنلسٹ مسلمان، مسلم لیگ سے بہت بڑی کانگریس اور انگریز سامراج منہ دیکھتا رہ گیا۔ 1946ء کے انتخابات میں قائدِ اعظم کو 75.6 فیصد ووٹ ملے۔ باقی 24.4فیصد ووٹ بھی سب کے سب پاکستان کے خلاف نہیں تھے بلکہ بہت سے آزاد امیدواروں، مذہبی جماعتوں اور علاقائی پارٹیوں کے حامی بھی۔ ملّا نے ان کی مخالفت کی۔ وہ مذہبی عناصر، جن کے بارے میں اقبالؔ نے کہا تھا میں جانتا ہوں انجام اس کا جس معرکے میں ملّا ہوں غازی اپنے نام لکھے گئے اقبالؔ کے خطوط کو قائدِ اعظم بہت اہمیت دیا کرتے۔ ان کے خطوط کو پڑھیں تو آشکار ہوتاہے کہ فکری اعتبار سے دونوں اکابر کیسے یکسو تھے۔ انگریزی اقتدار میں اورنگزیب عالمگیر کی کردار کشی کا سلسلہ جاری رہا تو اکبر الہٰ بادی نے کہا تھا تمہیں لے دے کے ساری داستاں سے بس یاد ہے اتنا کہ عالمگیر ہندوکش تھا، ظالم تھا، جفا جو تھا قائدِ اعظم اور اقبالؔ کی خط و کتابت سب سے بڑھ کر ان کے نظریات کو واضح کرتی ہے۔ پوری طرح وہ واضح تھے کہ اسلام کے ابدی اخلاقی اصولوں کو دل و جان سے اپنا کر ہی جدید مسلم ریاست کی تعمیر ممکن ہے۔ 14اگست 1947ء کی تقریبِ حلف برداری میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کہا: امید ہے کہ پاکستان شہنشاہ اکبرِ اعظم کی راہ چلے گا۔ قائدِ اعظم نے جواب دیا: ہم نے جمہوریت کا سبق چودہ سو سال پہلے ہی سیکھ لیا تھا۔ ان تقاریب کی تعداد 101 ہے، جن میں انہوں نے اسلامی دستور پہ اصرار کیا۔فرمایا: قرآن ہمارا آئین ہوگا۔ بعض کو صرف ایک تقریر یاد ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ریاست کو فرد کے ذاتی عقائد سے کوئی واسطہ نہیں ہوگا۔ وہ اپنی مساجد، مندروں اور گرجا گھروں میں جانے کے لیے آزاد ہوں گے۔ اس ایک خطاب کی بنیاد پر قائدِ اعظم کو سیکولر قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سامنے کی یہ حقیقت بھلا دی جاتی ہے کہ اپنی چالیس سالہ سیاسی زندگی میں قائدِ اعظم نے سیکولر کا لفظ کبھی استعمال ہی نہ کیا۔ علمی مجدد اقبال ؔنے بھی۔ 1895ء میں قائدِ اعظم انگلستان میں تھے، جب پہلی بار ہولی ہوکس کی تصنیف میں سیکولر ازم کی اصطلاح سامنے آئی۔ اس نے لکھا: کوئی آدمی سیکولر نہیں ہو سکتا اگر وہ خدا کو مانتا ہو۔ رہی رواداری تو قائدِ اعظم اور اقبالؔ سے زیادہ روادار کون تھا۔ اقبالؔ کی پوری شاعری میں دوسرے مذاہب کی تحقیر کا ایک ذرا سا پہلو بھی تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ یہی احتیاط اور شائستگی قائدِ اعظم میں کارفرما تھی۔ منیر احمد منیر سچ کہتے ہیں کہ قائدِ اعظم کی مجوزہ تقریر میں میثاقِ مدینہ کی جھلک دکھائی دیتی ہے، جس کے مطابق مدینہ کے مسلمان، یہودی اور گنتی کے عیسائی ایک امت شمار کیے گئے۔ ان سب کے حقوق یکساں تھے۔ نہایت سختی سے اور پختہ عزم کے ساتھ ریاست ان سب کے حقوق کی نگہبان تھی۔ رتّی برابر امتیاز کے بغیر۔ قائدِ اعظم ایک کھرے مسلمان تھے۔ بی بی سی کے وقائع نگار نے پوچھا: آپ مسلمانوں کے کس مکتبہ ء فکر سے تعلق رکھتے ہیں تو جواب ملا: جس سے جناب رسالت مآبؐ کا تعلق تھا۔ ایک عظیم رہنما، معاشرے کی تقسیم اور تعصبات سے ہمیشہ بلند ہوتا ہے۔ ایک نکتے میں قائدِ اعظم کی سوانح کو بیان کرنے کی کوشش کی جائے تو کہا جا سکتاہے کہ وہ توکل کی ایک کامل تصویر تھے۔ زندگی کٹھن رہی یا آسودہ،راستہ ہموار تھا یا نا ہموار،عمر بھر محمد علی جناح کبھی کسی سے مدد کے طالب ہوئے نہ مرعوب۔اپنے افکار اور اپنی منزل میں پوری طرح واضح اور یکسو۔ ان کی راہ اختیار کی جاتی تو قوموں کی برادری میں پاکستان آج بہت سربلند ہوتا کہ علمی اور اخلاقی بالیدگی کے اعتبار سے ان میں صوفیا کی سی شان پائی جاتی ہے۔قوم پگڈنڈیوں پہ چل نکلی اور ابھی تک بھٹکتی پھر رہی ہے۔منزل تو بعد کی بات ہے، یکسوئی کے بغیر راستے بھی روشن نہیں ہوا کرتے۔