ابھی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ابوظہبی پورٹ گروپ نے کراچی پورٹ پر کنٹینر ٹرمینل کا انتظامی کنٹرول سنبھال لیا ہے۔کے پی ٹی اورابوظہبی پورٹس گروپ کے درمیان معاہدے کی مدت 50 سال ہے۔معاہدے کے تحت ابوظہبی پورٹس گروپ ٹرمینل میں22 کروڑ ڈالر (63ارب 12کروڑ پاکستانی روپے)کی سرمایہ کاری کرے گا۔ مطلب! ہم نے اپنا ایک اور کاروبار غیروں کے حوالے کر دیا۔ یعنی ہم اتنے نااہل ہو چکے ہیں کہ ہم سے ریلوے چلتا ہے، نہ ائیرلائن، نہ سٹیل مل، نہ ائیرپورٹ اور نہ ہی اب پورٹس چل رہے ہیں۔ لیکن مراعات لینے میں یہ سب نمبر ون ہیں۔ حالانکہ ان کے اپنے کاروبار دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں۔ لیکن یہ نااہلوں کا ٹولہ اس وقت پورے ملک کو برباد کر رہا ہے۔ اور بربادی یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ عالمی معاشی ادارے ہمیں کہہ رہے ہیں کہ آپ ڈیفالٹ کر چکے ہیں بس اعلان ہونا باقی ہے۔ جبکہ ان حالات میں سینیٹ میں ایک بل پیش کیا گیاہے اور چند منٹوں میں اُسے منظور بھی کر لیا گیا ہے، چیئرمین کی تنخواہ اور مراعات میں اضافے کے علاوہ ان کے تین سال کا عرصہ مکمل کرنے کے بعد عہدے سے سبکدوش ہونے سے متعلق جو بل سینیٹ سے منظور کروایا گیا ہے اس کے اہم نکات یہ ہیں کہ چیئرمین کی تنخواہ دو لاکھ پانچ ہزار روپے ہو گی اور چیئرمین جس گھر میں رہے گا اس کا ماہانہ کرایہ ڈھائی لاکھ روپے ہوگا اور اس کی تزئین و آرائش پر پچاس لاکھ روپے خرچہ ہوگا۔ اس بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر چیئرمین سینیٹ منتخب ہوتے وقت اگر ان کے پاس کوئی سرکاری رہائش گاہ نہیں ہے تو انھیں ایسے گھر میں رکھا جائے گا جس کا ماہانہ کرایہ پانچ لاکھ روپے سے زیادہ نہیں ہو گا۔اس بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر چیئرمین سینیٹ اپنے ہی گھر میں رہ رہے ہیں تو انھیں سرکار کی طرف سے ڈھائی لاکھ روپے کرائے کی مد میں ادا کیے جائیں گے۔ سینیٹ سے پاس ہونے والے اس بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر چیئرمین سینیٹ بیرون ملک دورے پر جائے گا تو ان کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے زیر استعمال جہازوں کے علاوہ مسلح افواج یا کسی فلائنگ کلب کا طیارہ حاصل کیا جائے گا۔اس بل میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ اگر چیئرمین سینیٹ کے لیے کوئی طیارہ کرائے پر لیا جاتا ہے تو اس میں ان کے خاندان کے چار افراد ان کے ساتھ جا سکتے ہیں اور اگر چیئرمین سینیٹ کسی کمرشل فلائٹ سے بیرون ملک جاتے ہیں تو ان کے ساتھ ان کے ِخاندان کا ایک فرد ان کے ساتھ جاسکتا ہے جس کے اخراجات سرکاری خزانے سے ادا کیے جائیں گے۔اس بل میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ اگر کسی چیئرمین سینیٹ نے تین سال کا عرصہ مکمل کر لیا ہے تو وہ اور ان کی اہلیہ ملک میں اور بیرون ملک بھی سرکاری خرچ پر علاج کروانے کے اہل ہوں گے، اگر سابق چیئرمین فوت ہو جاتے ہیں تو ان کی بیوہ یہ سہولتیں حاصل کرنے کی اہل ہوں گی۔وغیرہ لیں جی !وزرائے اعظم، صدور، وزراء ، ججز کے بعد یہ موصوف رہ گئے تھے جنہیں مراعات نہیں مل رہی تھی، لہٰذااب انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے جائیں اور جاتے جاتے مراعات منظور کروا لی جائیں۔ لیکن اُنہیں شاید اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کے قریب ہے۔ اور یہاں 10کروڑ سے زائد کی آبادی کو یہ ہی نہیں پتہ ہوتا کہ اگلے روز کا کھانا اُن کے گھر پکے گا بھی یا نہیں! یا اُنہیں یہ بھی علم نہیں کہ اس ملک پر ڈیڑھ سو ارب ڈالر کے قریب قرض ہے۔ جو شاید ہماری آنے والی نسلیں بھی نہ چکا پائیں۔ یا اُنہیں یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ وہ کسی متوقع حادثے میں زندہ بھی بچیں گے یا نہیں۔ لیکن عقل سے عاری یہ سیاستدان عوام کے لیے احساس رکھتے ہیں نہ اُن کا پاس۔اور اپنی ذات کے لیے تمام مفادات سمیٹتے نظر آتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ہمارے ملک کا ہر ریٹائرڈ افسر یہی چاہتا ہے کہ وہ مراعات لے اور ملک سے کوچ کر جائے ۔ آپ خود دیکھ لیں ہمارے جتنے بھی ریٹائرڈ افسران ہیں، کوئی ملک میں نہیں رہتا۔ 90فیصد سے زائد افراد تو ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی بیرون ملک شفٹ ہو چکے ہوتے ہیں۔ حالانکہ ان لوگوں نے مراعات کیا کرنی ہیں؟لیکن لالچ اور ہوس شاید ان لوگوں میں اُسی دن آجاتا ہے جب یہ لوگ نوکری کا آغاز کرتے ہیں۔بندہ پوچھے کہ کیا نوازشریف یا زرداری جیسے امیر خاندانوں کو بھی مراعات چاہیے ہوں گی؟ آپ ان سب کی مراعات دیکھ لیں، کانوں کو ہاتھ لگائیں گے۔ اس وقت سابق و موجودہ حکمرانوں کی صرف سکیورٹی کے لیے سالانہ اربوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت صدر مملکت، وزیراعظم، وزرائ، مشیران و معاونین کی سکیورٹی اورپروٹوکول کا سالانہ خرچ 90کروڑ 43 لاکھ روپے ہے۔ عدلیہ کا خرچ50 کروڑ 45 ہزار روپے اور اسلام آباد پولیس کا سیکورٹی کی مد میں خرچ 95 کروڑ 46 لاکھ روپے ہے۔گورنر اور وزیراعلیٰ پنجاب کی سکیورٹی اور پروٹوکول پر سالانہ 42 کروڑ 70 لاکھ روپے، پنجاب کے سابق وزرائے اعلیٰ، وزراء اور بیوروکریٹس کی سکیورٹی پر سالانہ 10 کروڑ 58 لاکھ 70 ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں۔ لاہور میں عدلیہ کا سکیورٹی اور پروٹوکول کی مد میں سالانہ خرچ ایک ارب 14 کروڑ 31 لاکھ روپے ہے، صوبے میں سکیورٹی اور پروٹول کے دیگر اخراجات 83 کروڑ 36 لاکھ روپے ہیں، یوں مجموعی اخراجات 2 ارب 50 کروڑ روپے سے زائد بنتے ہیں۔اسی طرح خیبر پختون خوا میں وزراء کی سکیورٹی کا خرچ 22 کروڑ 21 لاکھ روپے، مشیران و معاونین کا 2 کروڑ 43 لاکھ 60 ہزار روپے، عدلیہ کا 50 کروڑ 14 لاکھ 80 ہزار روپے، حاضر سروس بیوروکریٹس کی سکیورٹی اور پروٹوکول کی مد میں 64 کروڑ 68 لاکھ روپے جبکہ دیگر اخراجات 76 کروڑ 81 لاکھ روپے ملا کر مجموعی سالانہ خرچ 2 ارب 44 کروڑ 80 ہزار روپے ہے اور جلسوں میں یہ زور و شور سے کہتے ہیں کہ ہم غریبوں کو روٹی کپڑا مکان جیسی سہولیات دیں گے، ہمیں ان کا احساس ہے، ہم پیٹ پر پتھر باندھ کر ان کا پیٹ پالیں گے، ہمارے پاس زہر کھانے کے بھی پیسے نہیں ہیں، ہمیں آئی ایم ایف کا قرض نہ ملا تو ڈیفالٹ کر جائیں گے، ہم دنیا کی پسماندہ ترین قوم ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن جب مراعات لینے کی باری آتی ہے تو یہ اپنے لیے خزانوں کے منہ کھول لیتے ہیں۔ الغرض! آپ یہ جان کر حیران ہو جائیں گے کہ اقوام متحدہ کے ڈیویلپمنٹ پروگرام (UNDP) کے مطابق پاکستان کی اشرافیہ سالانہ 17.4ارب ڈالرکی مراعات لیتی ہے، جس میں پاکستان کا طاقتور کارپوریٹ سیکٹر ملکی GDP کا تقریباً 4.5فیصد یعنی 4.7ارب ڈالر کی مراعات حاصل کرتا ہے، جس میں ٹیکس چھوٹ، صنعتوں میں بجلی گیس پر سبسڈی، مفت پیٹرول اور پلاٹ شامل ہیں۔ اسکے علاوہ جاگیردار، زمیندار، وڈیرے اور بڑے بزنس مین جو مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق کی بنا پر پارلیمنٹ میں اثر رکھتے ہیں، مراعات حاصل کرنیوالوں میں پیش پیش ہیں۔مجھے بھی مراعات چاہیے جس کے لیے آسان حل ہے کہ سینیٹ چیئرمین بن جائوں، پھر میں ملک کے لیے کچھ کروں یا نہ کروں بس ساری عمر کے لیے مراعات لوں اور اللہ اللہ خیرصلا!