گزشتہ روز وزیر دفاع جناب خواجہ محمد آصف نے حکومت کی جانب سے توانائی بچت کے سلسلے میں کچھ فیصلوں کا اعلان کیا ہے۔ جن کے مطابق کاروباری مراکز اور ریسٹورنٹ کو رات آٹھ بجے تک جب کہ شادی ھال رات دس بجے تک بند کئے جانے کی تجاویز شامل ہیں ۔ اسی کے ساتھ کچھ اور بھی اقدامات اس بچت مہم میں تجویز کئے گئے ہیں ۔بادی النظر میں اس اعلان میں کئے گئے بیشتر فیصلے وقت کی اہم ضرورت ہیں ملک کی موجودہ معاشی صورت حال کی بہتری کے لئے یہ فیصلے اور اسی طرح کے مزید فیصلوں کی ضرورت سے کسی کے لئے بھی انکار ممکن نہیں ۔مگر کیا پاکستا ن کے سماجی اور سیاسی ماحول میں ان کا عملی سطح پر نفاذ ممکن بھی ہو پائیگا ۔اور کیا حکمرانوں کے طرز عمل کے باعث عوام اس کے لئے آمادہ ہو جائینگے ! ہمارے خیال میںایسا ہونا مشکل ہوگا ۔ کیوں کہ : ۱۔ حکمرانوں کا طرز عمل اس کفایت شعاری سے مطابقت نہیں رکھتا۔ وفاق میں ستر رکنی کابینہ کی موجودگی اور جس میں ہر روز کسی نئے رکن کا اضافہ ہو رہا ہوتا ہے کس طرح عوام کو اس بات پر آمادہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ قومی کفایت شعاری مہم کا حصہ بنیں۔ ملک کی خراب ہوتی صورت حال میں بھی حکمرانوں کی وہی شان و شوکت اور شاہانہ بود و باش ہے ۔ جب تک حکرانوں کی جانب سے کفایت شعاری کا عملی مظاہرہ نہیں ہوگا ، عوام سے اس کا مطالبہ کرنا یا ان سے اس کی توقع رکھنا خیال خام کے سوا کچھ نہ ہو گا۔ ۲ ۔اس طرح کے اقدامات کے لئے نمائندہ تجارتی تنظیموں ،کاروباری اداروں کے منتظمین اور دیگر متعلقہ ذمہ داروں سے مشاورت ضروری ہوتی ہے جو کہ نہیں کی گئی لہذا ان کی جانب سے مزاحمت اور استرداد کے امکانات ہیں جس کا نتیجہ مہم کی ناکامی کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ ۳۔ سیاسی مخالفین ، جیسا کہ پاکستان میں روایت ہے کہ وہ ،حکومت کے اس اقدام کی مخالفت کرینگے خواہ حکومت کا یہ فیصلہ کتنا ہی درست کیوں نہ ہو۔ضروری تھا کہ اس طرح کے فیصلوں سے قبل سیاسی سطح پر مشاورت کے ذریعہ اتفاق رائے کو ممکن بنالیا جاتا ۔جس کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ۔ ۴ ۔ بڑے شہروں میں کاروباری اور خریداری مراکز عام طور پر دوپہر کے بعد کھلنا شروع ہوتے ہیں اور رات گئے دیر تک کھلے رہتے ہیں ۔اور یہ رجحان ایک پختہ طرز عمل میں بدل چکا ہے۔اس میں تبدیلی بتدریج اور قومی شعور کی تفہیم سے ہی ممکن ہو گی۔پاکستان میں سورج کی روشنی کی عظیم قدرتی نعمت کے طور پر موجود ہے۔صبح سات بجے سے شام سات بجے تک اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ جس سے پوری طرح فائدہ نہ اٹھانا درحقیقت بڑی بد قسمتی ہے۔اگر قومی سطح پر محض اس ایک عادت کو اختیار کر لیا جائے تو توانائی کے جس بحران کا ہمیں مسلسل سامنا رہتا ہے اس پر بڑی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ ۵ ۔ تمام غیر ترقیاتی اور غیر ضروری اخراجات پر فوری پابندی لگادی جائے حکمرانوں کی آ مدورفت ، استقبالیہ و افتتاحی تقریبات ،غیر ملکی دورے،کروفر اور شان وشوکت کے تمام مظاہرات فوری طور پر ترک کر دئے جائیں ۔ پٹرول جس کی درآمد پر کثیر زر مبادلہ درکار ہوتا ہے اس کے استعمال کو کم کرنے کے لئے اقدامات کئے جا ئیں۔ مہینے میں کم از کم ایک دن کاروں اور موٹر سائیکلوں کے استعمال پر پابندی ہو۔ اس سے جہاں پٹرول کے استعمال میں بچت ہو گی وہاں ماحولیاتی آلودگی میں بھی کمی کو ممکن بنایا جاسکے گا۔ ملک کی موجودہ صورت حال معاشی ہنگامی حالت ECONOMIC EMERGENCY))کے نفاذکی متقاضی ہے اس کے لئے سب سے پہلے سیاسی استحکام کی فضا قائم ہو ۔تمام سیاسی قیادت ملک کے لئے کئے جانے والے ضروری اور مشکل فیصلوں میں شریک ہو کر اس کی تائید کرے۔ معاشی مشکلات کی تمام تر صعوبتیں ہمیشہ عام آدمی کا ہی مقدر ہوتی رہی ہیں اب حکمرانوں اور تمام مقتدر اشرافیہ کی باری ہے وہ آگے آئیں اور ملک سے محبت کے تقاضوں کا عملی ثبوت دیں اب تک یہ مقتدر اشرافیہ عوام سے ہی ملک سے محبت کا خراج وصول کرتی آئی ہے ۔ اب حکران اشرافیہ کی باری ہے کہ وہ ملک کی اس نازک معاشی کیفیت میں ایثار و قربانی کا عملی ثبوت دے۔ اب محض باتوں سے یا عوام سے قربانی کا مطا لبہ کرنے سے کام نہیں چلے گاْ ۔ پاکستان اپنے وسائل اور جغرافیہ کے تناظر میں ایک اہم ریاست ہے ۔ مگر بدقسمتی سے حکمرانوں کی نااہلی ، کوتاہ نظری اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے آج اس کی یہ حیثیت بری طرح متاثر ہو چکی ہے ۔سیاست دانوں کی غیر ضروری باہمی آویزش نے اہم تر قومی مسائل کو پس پشت ڈال رکھا ہے ۔ اس سال اپریل میں وفاق میں حکومت کی تبدیلی کے بعدسے سیاسی سطح پر جو غیر یقینی صورت حال پیدا ہوئی اس نے پہلے سے موجود کمزور معیشت کو اور زیادہ متاثر کیا۔ وفاق میں قائم ہونے والی اتحادی حکومت جسے معیشت کی انتہائی خراب صورت حال کا مکمل ادراک تھا عمران خان کی حکومت کو محض اس لئے ہٹانا مقصود تھا کہ وہ قومی اسمبلی سے ایسی قانون سازی منظور کرانے میں کامیاب ہو جائیں جس سے ان کے وہ مقدمات جو قومی احتساب بیورو میں زیر سماعت ہیں ان سے انہیں رعایت مل سکے۔ اور وہ اس میں کامیاب بھی ہو گئی۔مگر اس کی بھاری قیمت ریاست کو معیشت کی سطح پر چکانی پڑ رہی ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں پر مشتمل اس اتحادی حکومت کے پاس معیشت کو سنبھالنے کے لئے کوئی واضح اور ٹھوس منصوبہ یا حکمت عملی نہیں تھی اور نہ ہی ایسی کسی حکومت کے لئے ، جو مختلف الخیال سیاسی جماعتوں پر مشتمل ہو ، مشکل فیصلے کرنا آسان ہوتا ہے۔ اس وقت ملک کی معاشی صوت حال نہ توحکو مت کے کمزور فیصلوں کا بار اٹھانے کے قابل ہے اور نہ ہی کسی طرح کا سیاسی عدم استحکام اس کے لئے مفید ہو سکتا ہے۔ملک اس وقت جس شدیدمعاشی بحران میں گھرا ہوا ہے اور جس میں ہر روز اضافہ ہی ہو رہا ہے ۔ اس سے نکلنے کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام ہو ، مالیاتی ایمرجنسی کے ضمن کئے جانے والے اقدامات پر ہر سطح پر عمل کو یقینی بنایا جائے۔ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے عالمی مالیاتی ادارے اور دیگر دوست ممالک پاکستان کو مزید مالیاتی سہارا دینے میں تردد کا شکار ہیں۔ملک دیوالیہ ہو یا نہ ہو صورت حال در حقیقت بہت گھمبیر ہے۔ اس مشکل معاشی کیفیت سے اب بھی وقت ہے،نکلا جاسکتا ہے ۔ سیاسی قیادت کوسیاسی مصلحتوں اور فوری مفادات سے بلند ہو کر اپنے سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ملک کے بہتر مسقبل کے لئے ایک مضبوط معاشی لائحہ عمل پر متفق ہو جا نے کی ضرورت ہے۔ تاکہ مالیاتی ایمرجنسی کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔ یہی وقت ہے سیاست دانوں کے لئے ریاست سے محبت کے تقاضے نبھانے کا ۔