ابن خلدون کہتے ہیں معاشرہ ساکن نہیں ہوتا۔ انیس سو سینتالیس کو ہم نے ایسا معاشرہ چھوڑا جو آجکل سیکولر انڈیا کے نام سے مشہور ہے۔ 1947ء سے قبل بالکل حقیقی سیکولر تھا اگرچہ سیکولرازم کی تعریف یہ ہو کہ تمام مذاہب اور قومیں ایک ساتھ مشترکہ رسوم و رواجات پر متفق ہوں ۔کہتے ہیں کہ چالیس سال بعد انسانی عمر پختگی کی ہوتی اسی حساب سے ممالک بھی ہوتے ہونگے یعنی 14 اگست انیس سو ستاسی کو پاکستان چالیس سال کا ہوچکا تھا 88 میں سیاسی سفر شروع ہوا بڑا اہم وقت تھا آج ہمیں منزل حاصل ہو جانی چاہیے تھی مگر 35 سال بعد بھی ہم وہیں کھڑے ہیں۔ ایک نسل سے دوسری نسل تک جذبات معدوم نہیں تبدیل بھی ہو جاتے ہیں۔ میرے بزرگوں نے مجھے بتایا آگے ان کے بزرگوں نے جو دیکھا میرے نظریات اور میرے بزرگوں کے نظریات تقریبا متصادم ہو سکتے ہیں۔ ریڈیو سے موبائل تک کا سفر بہت کچھ بدل چکا ہے موجودہ نسل بوسیدہ نصاب پر سوالات اٹھا رہی ہے آخر آپ انہیں کہاں تک قصے کہانیاں سناتے رہیں گے۔ جن کے ثبوت بھی مشکوک ہوچکے ہیں۔ چالیس سال کی ریاست عالم شباب پر تھی اور کثیر تعداد ایسے لوگوں پر مشتمل تھی جن میں شجاعت اور دوسروں کو مغلوب کرنے کا جذبہ مردہ نہیں ہوا تھا اس وقت بھی آزادی کو ایک معجزہ نور جیسی تشبیہات سے جوڑا گیا یہ ملک خاص مقصد کے لیے بنا ہے۔ اب عالم شباب میں ایسے نظریات آپ اندازہ لگائیں کہ کیا گل کھلا سکتے تھے۔ بدقسمتی سے دنیا میں بھی ایک ہیجان برپا تھا ہم ایک سیکولر معاشرے سے علیحدہ اور دوسرے کیمونسٹ ریاست کی پیش قدمی کو روکنے کی نذر ہوئے حالانکہ وہ کسی صورت بھی ہماری طرف پیش قدمی نہیں کر رہے تھے اور نہ ہی ان کے مقاصد میں شامل تھا۔ یہ جدید میڈیا پر ہمارے نوجوان سوالات اٹھا رہے ہیں۔ ہم نے کیوں اہل کتاب سمجھ کر صلیب والوں کا ساتھ دیا اور کمیونسٹوں کا راستہ روکا؟ انہوں نے جو کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ نظریاتی جنگ سے مالی فوائد حاصل نہیں ہوسکتے یہ وسائل کی جنگ تھی جسے نظریات کا لبادہ اوڑھایا گیا یعنی پاکستان کے عالم شباب میں ہم پر خوفناک صورتحال مسلط کی گئی۔ کاش ہم اس سے الگ تھلگ رہتے۔ عالمی تنازعات نے ہمیں تباہ کر کے رکھ دیا پوری دنیا خاموش اور اپنا کام کر رہی تھی اور ہم ایک سو اسی میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوسروں کی جنگ میںجا رہے تھے۔ چلیں کود پڑے! کاش اس کی قیمت تو پوری وصول کرتے۔ ڈیم بنواتے انڈسٹری چلواتے روزگار کے ذرائع پیدا کرتے وہ تو ڈبل قیمت بھی دینے کے لئے تیار ہو جاتے ان کے ذہن میں تھا یہ پوری دکان مانگیں گے مگر ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ہم نے ایک ٹافی مانگی۔ ہم نے اپنی کمزوریاں بھی دنیا پر ظاہر کر دیں۔ آج بھی ہمارا سیاسی نظام ایک نوحہ ہے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد یا قبل پیدا ہونے والے سیاستدان اس ملک کی تقدیر کے فیصلے کررہے ہیں حالانکہ امریکہ جیسے ملک کو اسی سال کا بابا چلا رہا ہے اور ہمارے ہاں مشہور ہے کہ آدمی بوڑھا ہو تو بچوں جیسی حرکتیں کرنے لگ جاتا ہے ویسے انہیں دیکھ کر لگتا بھی سچ ہی ہے نہ کھیلتے ہیں نہ کھیلنے دیتے ہیں۔ سیاست کو انہوں نے پیچیدہ ترین بنا دیا ہے کیونکہ سیاست کا بنیادی مقصد اقتدار کا حصول ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ الیکشن لڑنے کی کی فیس عام آدمی کی پہنچ میں رکھی گئی ہے مگر الیکشن لڑنے کا عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتا۔ قوم بھی عادی ہو چکی ہے۔ ذہن بنا چکی ہے سیاست اور اقتدار میں آنا صرف انہیں کا حق ہے جن کے پاس لوٹ مار کی دولت ہے۔ پچھلے دنوں پنجاب میں الیکشن ہوئے تو نہیں مگر سب سیاپنی آنکھوں سے دیکھا امیدوار مہنگی ترین گاڑیوں اور اورآٹو میٹک اسلحہ سے لیس گن مینوں کے ساتھ کاغذات نامزدگی جمع کروا رہے تھے ۔ خیال آیا کہ یہ لوگ غریبوں کے مسائل کیسے حل کریں گے ؟ کیسے ممکن ہے کہ اپنی جیب سے کوئی اتنے کثیر اخراجات کرے اور پھر کہاں سے پورے کرے گا اگر نہیں کرے گا تو اگلا الیکشن کیسے لڑے گا؟ بیشتر سیاست دان ایسے ہیں جن کے پاس کچھ بھی نہیں تھا مگر جونہی سیاست میں آئے دنیا جہان کی آسائشیں حاصل ہو گئیں۔ عام آدمی بیرون ملک جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا اور ان پر پوری دنیا کے دروازے کھلے ہیں ان کی نسلیں بیرون ملک تعلیم و تربیت حاصل کرتی ہیں اور واپس آتے ہی اقتدار کے دروازے ان کے لئے بھی کھل چکے ہوتے ہیں۔ آخر نسل در نسل یہ کب تک چلے گا؟ یہ سیاستدانوں کی ہی بات نہیں جو کوئی بھی اس ملک میں کوئی عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پوری کوشش کرکے پورے خاندان دوست احباب اور اپنی نسل کو بھرتی کروا جاتا ہے۔چند سال قبل سپریم کورٹ میں دوہری شہریت کی ایک طویل فہرست پیش کی گئی تھی جسے دیکھ کر ہوش اڑ گئے تھے کیا بنا اس فہرست کا 1980ء میں ماہرین وارننگ دے رہے تھے کہ اس ملک میں انرجی کا شدید بحران پیدا ہوگا کیا سدباب کیا گیا؟ افسوس یہ بحران آج ہماری ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔بجلی کے بلوں نے لوگوں کی چیخیں نکلوا دیں گھریلو صارف بل کی ادائیگی کرنے سے قاصر ہے کیا کسی ملک میں ایسا ہوتا ہے؟ ہمارے کاروبار تباہ کردیے گئے ہماری سٹاک اکسینج کا حال دیکھ لیں ہماراروپیہ ٹکوں میں تبدیل ہوچکا ہے ۔ مقصد مایوسی پھیلانا نہیں مگر آج معاشرہ تقسیم تو تھا ہی بے بس کیوں بنا دیا گیا ہے عام آدمی کی زندگی پر موجودہ حالات نے کیسے تباہ کن اثرات چھوڑے ہیں اشرافیہ کو کیا پتہ کہ مالی حالات نے سگے بہن بھائیوں قریبی ترین رشتہ داروں کو بھی اکٹھا نہ رہنے دیا۔ جن گھروں کی لوگ مثالیں دیتے تھے آج وہ ایک دوسرے کی شکلیں بھی نہیں دیکھتے ہر کسی کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے اب اور دیکھنے کو کیا رہ گیا ؟