سو سال پہلے ریاست بہاولپور کے نواب صادق محمد خان عباسی نے جامعہ عباسیہ کے نام سے الاظہر یونیورسٹی مصر کی طرز پردرسگاہ قائم کی۔ ان کا خواب تھا کہ مصر کی طرح اس یونیورسٹی کا بھی دنیا میں نام ہو۔ نواب صادق محمد خان عباسی کے خواب کی تعبیر موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب کے دور میں اس وقت سامنے آئی جب یہ طلبہ کی تعداد کے اعتبار سے پاکستان میں پہلے نمبر پر آگئی مگر حاسدین کو یہ بات پسند نہیں اس لئے وسیب کی اس عظیم تعلیمی درسگاہ کو بدنام کرنے کی مذموم مہم شروع ہوئی۔ یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب گورنر نے ڈاکٹر اطہر محبوب کو اسی یونیورسٹی میں بحیثیت وائس چانسلر توسیع دینے کا فیصلہ کیا یہ فیصلہ مخصوص لابی کو ناگوار گزرا جس نے مبینہ طور پر بہاولپور کے ایک بڑے سیاستدان جس نے سینکڑوں ملازم خلاف میرٹ اپنی پسند پر یونیورسٹی میں بھرتی کرائے، کی ایماء پر پہلی قسط کے طو رپر یونیورسٹی کے ڈائریکٹر فنانس پر صرف دس گرام آئس نشہ رکھنے کا الزام لگا کر اسے گرفتار کروایا اور سوشل میڈیا کے ذریعے منفی مہم چلائی گئی۔ ہمیں کسی کی فیور مطلوب نہیں مگر سوال یہ ہے کہ اگر سالہا سال سے یونیورسٹی سہراب گوٹھ بن گئی تھی اور نصف لاکھ سے بھی زائد عریاں ویڈیوز بن رہی تھیں تو یہ لوگ پہلے کہاں تھے؟ یہ اچانک اس وقت کیوں سامنے آئے جب وی سی کو سال چھ مہینے کی توسیع مل رہی ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ وسیب دشمنوں کے اس اقدام سے یونیورسٹی کے طلباء و طالبات والدین اور سول سوسائٹی میں انتہائی تشویش پائی جاتی ہے اور وسیب کی اس اہم اور سب سے بڑی درسگاہ کا نام بدنام کیا جا رہا ہے۔ لیکن یونیورسٹی کی سیاست میں خود یونیورسٹی کو تباہ کرنے والے یاد رکھیں کہ یہ صرف تعلیم دشمنی ہی نہیں بلکہ وسیب دشمنی بھی ہے۔ یونیورسٹی کے خلاف ایک بڑی منظم مہم چلائے جانے پر ہزاروں طلباء و طالبات، ان کے والدین اور سول سوسائٹی میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ مخصوص مقاصد کے تحت مہم چلانے والوں کو اتنا بھی خیال نہیں آیا کہ اس سے وسیب کی عظیم یونیورسٹی کے تباہ ہونے کا خطرہ ہے اور نام نہاد پروپیگنڈے سے ہزاروں بچوں کے والدین پر کیا بیت رہی ہو گی؟ لگتا ہے کہ مہم چلانے والوں کے اپنے بچے نہیں یا پھر اُن کے سینے میں دل نہیں۔ لیکن ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اتنے بڑے واقع پر وسیب کے سیاستدان خصوصاً بہاولپور سے تعلق رکھنے والے گورنر کیوں خاموش ہیں؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ مہم چلانے والے پہلے کیوں خاموش رہے؟۔ سکیورٹی انچارج یا ڈائریکٹر فنانس جو بھی ملوث ہے اس کے خلاف انکوائری ہونی چاہئے بلکہ جوڈیشنل انکوائری کروا دی جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ انکوائری میں جس پر بھی جرم ثابت ہوتا ہے اسے تادیبی سزا دی جائے۔ اگر وی سی کا کوئی مسئلہ ہے تو بلا شک اسے بھی گھر بھیج دیا جائے۔ وائس چانسلر آتے جاتے رہتے ہیں مگر سیاست میں یونیورسٹی کو تباہ نہیں کرنا چاہئے۔ طلبا اور طالبات کی تعلیم کو دائو پر نہیں لگانا چاہئے۔ اسلامیہ یونیورسٹی کا یہ کریڈٹ بہت سی یونیورسٹیوں کو اچھا نہیں لگتا کہ اس وقت اسلامیہ یونیورسٹی بہت اوپر چلی گئی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں جب جولائی 2019ء میں ڈاکٹر اطہر محبوب کی بحیثیت وائس چانسلر تعیناتی ہوئی تو اس وقت یونیورسٹی میں طلباء و طالبات کی تعداد صرف 13 ہزار تھی جبکہ جولائی 2023ء میں یہ تعداد غیر معمولی اضافے کے ساتھ نہ صرف 65 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی میں بہت سے نئے ڈیپارٹمنٹ وجود میں آچکے ہیں اور ہزاروں نئے لوگ برسر روزگار ہوئے ہیں۔ کیا اس حقیقت سے کوئی انکار کر سکتا ہے کہ وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب کی شبانہ روز محنت نے کئی دہائیوں سے نمبرون رہنے والی پنجاب یونیورسٹی لاہور کو کافی پیچھے چھوڑ دیا اور یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ اس کے علاوہ یونیورسٹی نے زرعی میدان میں بھی غیر معمولی کارکردگی دکھاتے ہوئے نہ صرف 25 ارب روپے مالیتی زرعی پراجیکٹس شروع کئے بلکہ اس یونیورسٹی کی تیار کردہ کپاس کی قسم آئی یو بی 13 نے پاکستان میں سب سے زیادہ رقبے پر کاشت ہونے کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ جہاں تک سکینڈل کا تعلق ہے تو اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کی انتظامیہ نے وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور انجینئرپروفیسرڈاکٹراطہر محبوب کی ہدایات پر یونیورسٹی کے دو افسران کے منشیات کے استعمال اور فروخت کے الزام میں گرفتاری کے بعدایک اعلی اختیاراتی تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی ہے۔ اصولی طور پر پراپیگنڈے کا جو طوفان اٹھایا گیا ہے اس سے پورے وسیب میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے۔ گورنر میاں بلیغ الرحمن کو اس کا فوری نوٹس لینا چاہئے اور اپنے شہر کی عظیم درسگاہ کو بچانا چاہئے کہ یہ سب کچھ اس بناء پر بھی ہو رہا ہے کہ وائس چانسلر اپنے چانسلر کے احکامات کی تعمیل کر رہا ہے اور یہ بات اُن کو پسند نہیں جو سابق ریاست کے تمام اداروں کو اپنا مطیع اور فرمانبردار بنانا چاہتے ہیں۔ جہاں تک سکینڈل کا تعلق ہے، گو کہ یونیورسٹی کی تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ پروفیسرڈاکٹر راؤسعید احمد، چیئرمین ڈیپارٹمنٹ آف فارماسیوٹیکل کیمسٹری جبکہ ممبران میں پروفیسرڈاکٹر محمد امجد،ڈین فیکلٹی آف انجینئرنگ،پروفیسرڈاکٹر سعیداحمد بزدار،ڈائریکٹرانسٹیٹیوٹ آف فزکس،محمد بلال ارشاد،ایڈیشنل رجسٹرار لٹیگیشن شامل ہیں۔ تاہم معاملے کی جوڈیشل انکوائری ہونی چاہئے اور جس پر جرم ثابت ہو اس کو بھی سزا ملنی چاہئے جبکہ جو لوگ وسیب دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یونیورسٹی کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے کہ یہ لوگ 5500 عریاں ویڈیوز کا الزام لگا رہے ہیں۔ جبکہ ابھی تک ایک بھی الزام ثابت نہیں کیا جا سکا۔ معاملے کو خراب کرنے میں بہاولپور پولیس کا پورا پورا ہاتھ ہے کہ وہ پلانٹ شدہ بیانیہ کو آگے بڑھانے میں پیش پیش ہے اور ڈی پی او یہ بھی کہتے ہیں کہ سب کچھ وزیر اعلیٰ اور آئی جی کے حکم پر کر رہے ہیں۔ جہاں مادر علمی کا تعلق ہے، بچوں کی تعلیم کا مسئلہ ہے تو وہاں ایک منظم کمپین کے تحت یہ سب کچھ کیوں کیا گیا؟ وزیر اعلیٰ اور آئی جی کو اس کا نوٹس لینا چاہئے۔