میر کا قصور نہیں تب ملک ِخدا داد چوغطوں کی ملکیت تھا کہ ان کو بھی ملک خدا کی مہربانی سے ہی ملا تھا تب وہ ملک ِخدا داد تھا اب ہمارا تمہارا ملک ملک ِخداداد ہے۔ تب ہندوستان کے سیاسی حالات ہی ایسے تھے جیسے اب ہمارے ہیں۔محمد بخش آشوب میر کے ہم عصر تھے۔ آشوب تخلص کرتے تھے (زمانہ نام اور تخلص ساتھ لاتا ہے)نے اس دور پر آشوب کے بارے میں لکھا ہے کہ عالمگیری عہد کے بعد بہادر شاہ اول اور محمد شاہ کے پچاس سالہ دور میں شاہی تاریخ نویسی ممنوع قرار پائی تھی۔اس زمانے میں کچھ تھا ہی نہیں جسے وہ قابل اعتنائے تحریر سمجھتے۔تب بھی میر ہی کام آئے اور ذکر میر اپنی سوانح تحریر کی۔یہ تاریخ نویسی نہیں مگر اس عہد کی تاریخ ہے۔محمد بخش آشوب کے قلمی نسخے اب ولائیت کی لائبریریوں میں محفوظ ہیں۔یہ علم کی عدم سرپرستی کا زمانہ پچاس ساٹھ جاری رہا الا شاہ عالم کا دور آیا تو تذکرہ نویسی جاری ہوئی۔علما فضلا دربار کی زینت بنے۔میر کا گلہ تھا: پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی یہ باتیں ہمیں میر کے محولہ بالا شعر سے یاد آئیں۔ شعر تو اس دن ہم نے اور بھی سنے اور دو کتب بھی دو شعرا نے عنایت کیں۔ صغٰری صدف نے اج میں تیرا سفنا بنناں اور اویس ملک نے ترا حکم تھا کہ سفر کروں۔صغرٰی صدف کی کتاب آشوب ِذات ہے۔پنجابی زبان کا پرسان ِحال تو کوئی نہیں مگر شکر ہے کچھ دیوانے اپنے پلے سے اس شوق کو پورا کر رہے ہیں۔دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ پنجابی شاعر یا لکھاری کو درجہ دوم کا لکھاری اور شاعر سمجھا جاتا ہے۔اس صورت ِاحوال کے بھی ہم خود اہل پنجاب ہی ذمہ دار ہیں کہ اقبال کے ظہور کے بعد اردو شاعری پر بلکہ اردو ادب پر پنجابیوں کی ہی حکمرانی رہی ہے۔ کسی صنفِ ادب کو دیکھ لیں سب سے اوپر پنجاب کا آدمی ہو گا۔ افسانہ ناول غزل نظم تنقید سب میں اول درجے کے لوگ اپنے پنجاب کے ہی ہیں۔مگر ظلم یہ ہے کہ وہ اردو کی قیمت پر اپنی زبان کو نظر انداز کر رہے ہیں۔بیدی منٹو عبداللہ حسین فیض راشد مجید امجد اور اس عہد میں یہاں سے وہاں تک پنجابی ہی موجود ہیں۔ایک کالم نویسی رہ گئی تھی اخبارات کراچی کی بجائے پنجابیوں نے جاری کیے تو کالم نویس بھی یہیں سے اٹھے اور اردو والوں کی مناپلی کو ختم کر دیا۔یہ صورت ِحال تا دیر رہنے والی نہیں۔اہل پنجاب پنجابی زبان کی طرف بھی ضرور آئیں گے۔دوسرا اہم مسئلہ ادبی جرائد کا ہے۔پورے پنجاب میں ایک بھی کام کا پنجابی زبان کا پرچہ نہیں۔ان پرچوں کا بھی قصور نہیں ان کو اچھے لکھاری دستیاب ہوں گے تو پرچے کی وقعت ہو گی ورنہ کاغذ کا ضیاع یوں بھی ہو ہی رہا ہے۔صغرٰی صدف کی غزل میں اپنا پنجاب پورے جوبن پر ہے۔اس پر اس کا پنجابی صوفیا مہان شاعروں سے عشق اسے اسی لڑی میں پرو سکتا ہے۔اس کتاب میں سسی کا مارو تھل اور خان پنل کا انتظار ہے فقر کا بانا ہے دل کی دھرتی ہے اور نینوں کی جوگ ہے۔سانسوں کی تسبیح ہے اور دم کا یاھو یا ھو ہے۔اس کتاب کا سرناواں اج میں تیرا سفنا بننا بہت معنی خیز ہے۔شاعری وجود سے باہر نکل کر خارج دیکھنے کا نام ہے۔مرشد نے کہا تھا وجود سے آزادی اصل شاعری ہے جب استفسار ہوا کہ کیا یہ ممکن ہے تو برجستہ بولے خواب کیا ہے کیا آدمی وجود کے پنجرے سے باہر نہیں نکلتا؟۔ اویس ملک کا پہلا شعری مجموعہ ترا حکم تھا کہ سفر کروں ایک بھرپور مجموعہ ہے کہ ایک تو پہلی کاوش اور پھر اس میں پچپن غزلیں اور دس پندرہ نظمیں خود اس کا ثبوت ہیں۔اس میں نئے ذائقے کی غزل کے جابجا نقوش ملتے ہیں، ایسی غزل کہنا آسان کام نہیں ہے۔اس میں کہیں روایتی اور ضعف کی ماری شاعری نہیں ہے غزل کے تیور ہیں کہ: ستم تو یہ ہے کہ تیرے حصے سے گھٹ رہا ہوں تری ضرورت ہوں اور لوگوں میں بٹ رہا ہوں تو ایک سیل ِرواں کی صورت گزر رہا ہے میں اک جزیرہ ہوں ہر کنارے سے کٹ رہا ہوں کسی سمندر میں تھک کے گرتا ہے جیسے دریا میں ایک دنیا سے ایک دل میں سمٹ رہا ہوں پہلا مجموعہ آتا ہے تو لوگ زندگی بھر اسے چھپاتے پھرتے ہیں۔یہ ایسا مجموعہ نہیں لگ رہا ہے شاعر کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے۔اس کا زندگی کے ریلے میں شامل ہونا اور شاعروں کی محفل میں آنا اس پر دال ہے۔یہ اعتماد اور ہمت کار مراداں ہیں ورنہ بھرے ہیں جس قدر جام و سبو میخانہ خالی ہے والی صورت حال ہے۔جہاں ہمیں یہ دو خوبصورت کتابیں عطا کی گئیں وہاں کے میر مجلس عطاالحق قاسمی تھے وہ کہیں ہوں اور محفل بخ نہ سکے۔اب پنجابی ہوں بخنے کی اردو لکھ کر اس ماں بولی لفظ کی قدر کم نہیں کرنا چاہتا۔عطاالحق قاسمی نے غزل سنانے سے پہلے منیر نیازی کو یاد کیا۔ان کا ایک واقعہ بھی سنایا جب وہ امریکہ گئے تو ایک صاحب جو شاعر بھی تھے اور نیازی صاحب کو اپنا کلام سنا بھی چکے تھے، شاپنگ کے لیے لے گئے۔سٹور پر پہنچے تو میزبان کہنے لگے کہ میں تو پرس گھر ہی بھول آیا ہوں۔نیازی بولے : (اک توں شاعر بوہت بھیڑا ایں اتوں توں بٹوا وی بھل آیائیں)۔ ایک تو تو شاعر بہت برے ہو اوپر سے پرس بھی بھول آئے ہو۔قاسمی صاحب میر محفل تھے تو ان کا ذکر قطر سے آئے ہوئے پیارے شاعر اور انسان قمر ریاض کے ساتھ ہی سجتا ہے کہ قمر کے اعزاز میں ہی یہ محفل سجائی گئی تھی۔قاسمی صاحب کی غزل کے تین اشعار دیکھیں: کیسے اسے نکالوں میں زندان ِذات سے زندان ِذات ہی میں مقفل تو میں بھی ہوں خواہش کی وحشتوں کا یہ جنگل ہے پر خطر مجھ سے بھی احتیاط کہ جنگل تو میں بھی ہوں میر کا شعر یوں بھی بہت لطف دے سکتا ہے پیدا کہاں ہیں ایسے شگفتہ مزاج لوگ افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی