الیکشن اور برسات میں بڑی مماثلت ہے ۔ برسات آئے یا الیکشن برساتی ڈڈو یا کچھ مرتبے اور عزت کا خیال ہو تو مینڈک کہہ لیں ، بڑی تعداد میں منظر عام پر آ جاتے ہیں۔آج کل برسات بھی ہے اور الیکشن کی آمد آمد بھی۔ میرے گھر کا لان برساتی مینڈکوں سے بھرا ہوتا ہے۔ دروازے پوری طرح بند کرکے سونا پڑتا ہے ورنہ ان مینڈکوں کی ٹر ٹراہٹ سونے ہی نہیں دیتی۔جس دن ہلکی سی بارش ہو جائے ، ہر روشنی کے بلب کے ارد گردسینکڑوں کی تعداد میں پتنگے آ جاتے ہیں۔ جن کی زندگی چند گھنٹوں کی ہوتی ہے ۔ پر جلنے پروہ نیچے گرتے ہیں اور مینڈکوں کی موج لگی ہوتی ہے۔انہیں کھا کھا کر خوب موٹے ہوتے ہیں۔صرف نر مینڈک ٹرٹراتے ہیں، مادہ مینڈکی ہمیشہ خاموش رہتی ہے،مینڈک میں کوئی ہڈی نہیں ہوتی۔اس لئے ان میں کافی لچک ہوتی ہے،سیاسی مینڈکوں سمیت۔مینڈکوں کی یہ ساری اچھل کود برسات کی حد تک ہی ہوتی ہے۔ برسات چلی جاتی ہے تو یہ منظر عام سے مکمل غائب ہو جاتے ہیں،اگلی برسات تک کے لئے۔عام دنوں میں کوئی کوئی نظر آتا ہے۔مینڈکوں کی پانچ ہزار ایک قسمیں ہیں۔ جی ہاں پانچ ہزار تو وہ جو سائنس دان بتاتے ہیں اور ایک وہ جو سیاسی مینڈک ہیں اور صرف پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ الیکشن بس ہوا چاہتے ہیں۔ کوئی دو یا تین ماہ کی بات ہے۔ چنانچہ سیاسی مینڈک بھی پوری طرح اچھل کود میں مصروف ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارا کوئی لیڈر اپنے گلیمر یا کسی اور وجہ سے جب اقتدار میں آتا ہے تو سیاسی ورکرز کو اہمیت دینے کی بجائے دوستوں یا عزیز و اقارب کو نوازتا ہے وہ دوست اور عزیزجن کی سیاسی حیثیت کچھ نہیں ہوتی ، وہ سارے چشم زدن میں سیاسی بھی ہو جاتے ہیں اور لیڈر بھی۔ان کی خاص پہچان یہی ہے کہ وہ لیڈر بننے کے بعد پھول جاتے ہیں اور ٹرٹراتے ضرورت سے زیادہ ہیں کہ لوگ جان جائیں کہ وہ بھی اس بزم میں ہیں اور اب صاحب حیثیت بھی ہیں۔ وہ سارے حادثاتی لیڈر جب دھتکارے جاتے ہیں ، وہ لیڈر جس نے ان کو بلندیوں کی طرف گامزن کیا تھا ، جب انہیں ٹھکرا دیتا ہے تو یہ اسی غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں کہ وہ اب لوگوں میں بہت مقبول ہیں۔ اسی غلط ٖفہمی میں وہ الیکشن سے پہلے خوب ٹرٹراتے ہیں۔ اچھل کود کرتے ہیں کہ لوگوں کو یقین ہو جائے کہ وہ واقعی لیڈر ہیں ۔ ہمارے لوگ بھی عجیب ہیں انہیں باتوں میں آسمان پر اڑتا ثابت کر دیتے ہیں ،ان کے پیر زمین پر لگنے نہیں دیتے، اسی لئے وہ آسمان سے نیچے آنے کو تیار نہیں ہوتے تا وقتیکہ الیکشن کا رزلٹ انہیں منہ کے بل نہیں گراتا۔ الیکشن ان کی تمام غلط فہمیاں دور کر دیتا ہے ۔ الیکشن کا رزلٹ انہیں بتاتا ہے کہ وہ ہمیشہ سے سیاست میں کم تر تھے یا کم ترین۔ میں آجکل نظر آنے والے بہت سے سیاسی مینڈکوں کا تجزیہ کر رہا تھا۔کچھ مینڈک تو اسی تھالی میں چھید کر رہے ہوتے ہیں جس میں انہوں نے عرصے تک کھایا ہوتا ہے۔ صحیح کہتے ہیں کہ کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتا ہے مگر کہاں یہ کسی کو معلوم نہیں۔ ایک لینڈ مافیا کے بڑے آدمی جو خود کو عظیم لیڈر سمجھتے ہیں اور ان کے تعلقات اوپر تک ہیں اور کیوں نہ ہوں آج کل تعلقات تو صرف دولت کے محتاج ہوتے ہیں۔ ان کے پاس پیسہ ہے تو اوپر والے ان کے گن گاتے ہیں مگر عوام کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔پچھلی دفعہ انہوں نے الیکشن لڑا مگر چودہ کروڑ خرچ کر کے بمشکل چودہ سو ووٹ حاصل کر سکے۔ آج بھی وہ خوب ٹرٹرا رہے ہیں مگر اب شاید چودہ سو بھی ان کے مقدر میں نہ ہوں۔ ایک نوجوان سیاسی مینڈک جسے میں عرصے سے جانتا ہوں آج کل بڑی سر میں ٹرٹرا رہا ہے، وہ یہ بھول کر کہ آج کی اس کی حیثیت کس کی مرہون منت ہے، اسی کے خلاف خوب ٹرٹرا رہا ہے ۔ وہ حادثاتی لیڈر بننے سے پہلے یا سارا دن کسی نامور لیڈر کے پیچھے اپنی گاڑی لئے پھرتا تھا یا پھر فلمی اداکارائوں کے پیچھے۔ اس کی ساری ٹرٹراہٹ منفی ہے ۔ اسے پتہ ہی نہیں کہ منفی باتیں اسے کبھی کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گی بلکہ اس کا بھلا کریں گی ، جس کے خلاف وہ ٹرٹر کرے گا۔ دنیا میں کچھ مقام ایسے ہیں کہ جہاں آپ رہ رہے ہوں توآپ کے تعلقات بہت منتے ہیں۔ بہت سے پاکستانی وہاں کا چکر لگاتے ہیں ۔ دیار غیر میں ان کی ہلکی سی مدد سے وہ آپ کے انتہائی مشکور ہوتے اور ہمیشہ آپ کے گن گاتے ہیں۔ آپ پاکستان آئیں تو وہ آپ کو عزت اور احترام دیتے ہیں۔ آپ کی جس قدر ممکن ہو مدد کرتے اور آپ کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ خصوصاًیہ مقام لندن، جدہ اور متحدہ عرب امارات ہیں۔ ان مقامات پر پاکستانیوں کی بڑی تعداد جاتی ہے اور وہاں رہنے والے ان کا ہلکا سا خیال کرکے بہت تعلقات بناتے اور پھر پاکستان آ کر ان تعلقات کو اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں۔ ایسے کئی سیاسی مینڈک پاکستان آتے اور بغیر کسی جدوجہد کے وزیر مشیر یا گورنر بھی بن جاتے ہیں۔ ان کا کوئی حلقہ نہیں ہوتا مگر لوٹ مار کی آزادی سے کون فائدہ نہیں اٹھاتا۔ وہ الیکشن لڑیں یا نہ لڑیں مگر خود کو پیش پیش رکھتے ہیں کہ شاید لوٹ مار میں حصہ مل سکے۔نگران وزیر اعظم کے لئے وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ کسی نام پر اتفاق نہ ہوا تو معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس جائے گا۔ ٭٭٭٭٭