سانحہ جڑانوالہ کے بعد بین المذاہب مکالمہ اور بالخصوص مسلم کو مسیحی تعلقات کی ترویج اور تبلیغ کا اہتمام بڑے موثر پیرائے میں معرض ِ عمل میں آیا ہے ، اس میں بالخصوص مسلم علماء اور صاحبانِ محراب و منبر نے بڑی فرخدالی اور جرأت کے ساتھ ، اس موضوع کو محض فکری یا نظری نہیں بلکہ عملی سطح پر آگے بڑھایا ، جڑانوالہ میں اہلحدیث ِ عالم مولانا سکندر حیات ذکی علماء کے وفد کیساتھ جڑانوالہ کے تباہ حال سالویشن آرمی چرچ میں گئے اور ان کے پادری اور بشپ کو دعوت دی کہ جب تک آپ کے چر چ تعمیر نو کے مرحلے میں ہیں تب تک سنڈے سروسز اور خصوص عبادات کیلیے ہماری مساجد کے دروازے کھلے ہیں ۔ ایسا ہی ایک سیمپوزیم ایوانِ اوقاف میں بھی منعقد ہوا، جس میں بشپ آف لاہور ندیم کامران اورچیئرمین متحدہ علماء بورڈ ڈاکٹر راغب حسین نعیمی ، مفتی محمد رمضان سیالوی،مفتی محمد اسحاق ساقی، مفتی فتح محمد راشدی، ڈاکٹر مختار احمد ندیم،مفتی سجاد الجوادی ، مفتی محمد عمران حنفی، ڈاکٹر مفتی محمد کریم خاں ، ڈاکٹر مفتی عمران نظامی سمیت سکالرز نے شرکت کی ۔ سیمپوزیم،عام سیمینارز اور کانفرنسز سے قدرے مختلف ہوتا ہے،اس میں کچھ بنیادی مباحث کے نتائج کا ابتداہی میں تعین کر کے،اس کے مشکل اور فیصلہ کن امور کو زیر بحث لاکر،لائحہ عمل مرتّب کیا جاتا ہے ۔ مسلم اور مسیحی علماء کے افکار و خیالات بڑے پروگریسو تھے، جن میں سے چند ایک اپنے قارئین سے شیئر کرنا ضروری ہیں ۔ ٭جڑانوالہ واقعہ افسوسناک ہے،اس کی مذمت کرتے ہیں۔توہین قرآن،توہین رسالت،انجیل اور چرچ جلانے والوں کوقانون کے مطابق سزادی جائے ۔ ٭مسیحی کمیونٹی پاکستان کی محسن ہے، ایس پی سنگھا کے ووٹ کی وجہ سے پنجاب پاکستان کا حصہ بنا ۔یہ فورم پاکستان کے قیام کے حوالے سے مسیحی برادری کے اس تاریخی عمل اور جذبے کوقدر کی نگاہ سے دیکھتاہے۔ ٭مسیحی آئین پاکستان کے تحت برابر کے شہری ہیں۔انکو،غیر مسلم پاکستانی شہری، کہنا چاہیے۔ ٭آقاکریم ﷺ نے نجران کے مسیحی وفد کیلئے مسجد نبوی کے دروازے کھولے اور انہیں عبادت کی اجازت دی۔مسیحی بادشاہ نجاشی نے مسلمانوں کو اپنے ملک میں عزت، تحفظ اور امان دی۔علماء اسلام کو چاہیے کہ وہ مسیحیوں کی عبادت کے لیے مساجد و مدارس کے دروازے کھولیں۔ ٭کسی مسیحی کو برُے القاب یانام سے پکارنا اسلام کی تعلیمات کے منافی ہے۔ ٭جڑانوالہ واقعہ میں علماء اور پاکستانی عوام کے ردّ عمل سے شدت پسندوں کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ ٭اسلام کے آفاقی اصول رواداری اور بقائے باہمی ہیں، اُسکی ترویج کیلئے محراب و منبر کو مزید مستعد ہونے کی ضرورت ہے۔ ٭غیر مسلموں کی جان،مال اور عزت وآبرو کی حفاظت مسلمانوں کا مذہبی وآئینی فریضہ ہے۔ ٭شدّت پسندی کے خلاف قوم کا بیک آواز ہونا نیک شگون ہے،اس رویے کو عملی و فکر ی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس ابتدائی گفتگو کے بعد،نجران کے وفد کی مدینہ طیبہ آمد کا ذرا تفصیلی تذکرہ لازم ہے ۔ہجرت کے نویں سال جیسے عام الو فود یعنی وفدوں کی آمد کا سال بھی کہا جاتا ہے ، ان میں سے پہلے حاضری کا شرف نجران کے وفد کو حاصل ہوا ۔نجران --- مکہ سے یمن کی طرف سات مراحل کے فاصلے پر ، ایک وسیع و عریض علاقہ ہے ، جس میں تہتر گائوں آباد تھے ، جس میں ایک لاکھ کے قریب جنگجو جوان تھے ۔ نبی اکرمﷺنے ان کی طرف حسبِ ذیل گرامی نامہ ارسال کیا ، جس میں ان کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی ۔ ابراہیم، اسحاق اور یعقوب( علیہم السلام) کے پروردگار کے نام سے،مَیں اس خط کا آغاز کر رہا ہوں ۔ بعد ازاں میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ بندوں کی پرستش کو چھوڑ کر اللہ کی عبادت کیا کرو اور بندوں کی دوستی کو ترک کر کے اللہ کی دوستی کو اختیار کرو۔ اگر تم اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار کرو تو پھر جزیہ ادا کیا کرو۔ اوراگر تم جزیہ ادا کرنے سے بھی انکار کرو تو پھر جنگ کے لیے تیار ہوجائو۔ والسلام گرامی نامہ موصول ہونے پر ان کے لاٹ پادری پر شدید گھبراہٹ طاری ہوگئی ۔ اس نے شرحبیل بن وادعہ جو اہلِ نجران کا سرکردہ ، فہم و فراست کا حامل اور مشکل حالات میں قوم کو صحیح سمت راہنمائی کا داعیہ ، جذبہ اور صلاحیت رکھتا تھا ، کو طلب کیا ۔ شرحبیل نے مکتوب ِگرامی کو پڑھا اور جواب دیا کہ آپ جانتے ہیں اللہ نے حضرت ابراہیم کے فرزند حضرت اسمعیل کی اولاد سے نبی مبعوث کرنے کا وعدہ فرما رکھا ہے ۔ یہ ہستی ہی وہ نبی موعود ہے ۔ اس نے کہا کہ دنیاوی معاملات میں میر ی بات تو صائب ہوتی ہے ، لیکن یہ نبو ت کی بات ہے ، مزید کچھ کہنے کی اجازت نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد لارڈ پادری نے عبد اللہ بن شرجیل سے رائے طلب کی ۔ اس کے بعد اس نے جبار بن فیض جو کہ مقامی کمیونٹی کا سردار تھا ، اس سے استفسار کیا ، اس کی رائے بھی اپنے پیشرو اکابرین کی طرح تھی ۔ اپنی قوم کے تین دانشوروں کی متفقہ رائے سے آگاہی کے بعد لارڈ پادری نے وادی میں ناقوس بجایا ۔ جو ہر مشکل وقت میں بجایا جاتا ، ساری قوم اکٹھی ہوگئی ۔ ان کو گرامی نامہ پڑھ کر سنایا گیا اور ان سے رائے طلب کی گئی ، سب نے متفقہ تجویز پیش کی کہ شرحبیل بن وادعہ ہمدانی ، عبد اللہ شرحبیل ، جبار بن فیض الحادثی کو مدینہ منورہ بھجوایا جائے ، وہ نبی اکرمﷺسے ملاقات کریں اور پھر واپس آکر اپنی رپورٹ پیش کریں ۔ جس کی روشنی میں مستقبل کا لائحہ عمل مرتب کیا جائے۔ نجران کے عیسائیوں کا جو وفد بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا، وہ ساٹھ شہسواروں پر مشتمل تھا ۔ ان میں چودہ ان کے رئیس تھے ۔ ان میں سے تین وہ زیرک لوگ تھے جن کی طرف ہر مشکل معاملہ میں رجوع کیا جاتا تھا اور ان کا فیصلہ قطعی تصور کیا جاتا تھا ۔ ان میں سے ایک کا نام عبد المسیح تھا جو العاقب کے لقب سے معروف تھا ۔ یہ ساری قوم کا امیر اورمشیر تھا ۔ اس کی رائے کے بغیر وہ کوئی قدم نہیں اٹھاتے تھے ۔ دوسرے کا نام الا یہم تھا جو السید کے لقب سے معتبر تھا ۔ قافلہ کی آمدورفت اور قیام و کوچ کا سارا انتظام اس کے سپرد تھا ۔ تیسرے کا نام ابو حارثہ بن علقمہ تھا جو بنی بکربن وائل کا فرد تھا ۔ یہی ابو حارثہ نجران کے تمام عیسائیوں کا لارڈ پادری تھا اور ان کا جید عالم اور پیشوا تھا ۔ ان کی ساری مذہبی درسگاہوں کا ناظم اعلیٰ تھا ۔ شاہان روم نے اس کو بڑے اعزازات دیئے اور اس پر انعام و اکرام کی بارش کر کے اسے رئیس اعظم بنادیا تھا ۔ اس کے لیے انہوں نے جگہ جگہ گرجے تعمیر کردیئے تھے ۔ اس کے علم و فضل میں یگانہ ہونے کے باعث اس پر اپنے اکرام و انعام کی انتہا کردی تھی۔ جب یہ وفد مدینہ طیبہ کے قریب پہنچا تو انہوں نے اپنے سفر کے لباس کو اتار ا اور شاندار لباس زیب تن کیا ۔ انہوں نے حیرہ کی بنی ہوئی ریشمی خلعتیں پہنیں، سونے کی انگوٹھیاں اپنی انگلیوں میں سجائیں اور رسول کریم ﷺکی مسجد شریف میں داخل ہوئے ۔ اس وقت حضورﷺ عصر کی نماز سے فارغ ہوچکے تھے ۔انہوں نے مسجد نبوی میں داخل ہو کر مشرق کی طرف منہ کیا اور نماز پڑھنی شروع کی ۔ بعض صحابہؓ نے اس سے روکنا چاہا ، لیکن سرور عالمﷺنے انہیں ایسا کرنے سے منع فرمایا ۔ چنانچہ انہوں نے اطمینان سے اپنے عقیدہ کے مطابق اپنے قبلہ کی طرف منہ کر کے اپنی نماز ادا کی ۔(جاری ہے )