9 مئی 2023 کوپاکستان کی سیاست کا ایک سیاہ دن قرار دیا گیا ہے۔اس دن پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کی ایک روزہ گرفتاری کے بعد ہونے والے پر تشدد واقعات بالخصوص لاہور میں کور کمانڈر ہائوس ( جناح ہائوس ) پر حملہ اور اس کی تباہی اور پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کو نذ آتش کیا جانا سنگین نوعیت کے واقعات تھے ۔ ان واقعات کی ہر پاکستانی پرزور انداز میں مذمت کر رہا ہے اسی بنا پر افواج پاکستان نے گزشتہ روز یوم تکریم شہداء کا اہتمام بھی کیا تا کہ شہداء کے اہل خانہ کی دلجوئی کی جا سکے۔ اس سلسلے میں متعدد تقاریب منعقد کی گئیں جن میں شہداء کے اہل خانہ نے خصوصی طور پر شرکت بھی کی اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے شہداء کے اہل خانہ اور بچوں کے ساتھ خصوصی ملاقاتیں بھی کی۔ یہ سیاسی احتجاج نہیں تھا مکمل تخریب کاری اور ریاست دشمنی تھی جسے قومی ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میںبھی بڑی اہمیت دی گئی۔ ان واقعات کی آزادانہ تحقیقات ہونی چاہیئے جو ملوث افراد ،ان کے سہولت کار اور اس کے پس پردہ منصوبہ ساز یا منصوبہ سازوں کا تعین کرے تاکہ حقیقت واضح ہو کر سامنے آسکے۔ اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ احتجاج کا یہ رویہ کسی بھی طور قابل قبول نہیں ہو سکتا البتہ اس بات میں شبہات کی گنجائش موجود ہے کہ اس احتجاج کی آڑ میں تحریک انصاف کے کارکنوں کے ساتھ ملک دشمن عناصر شامل ہوگئے ہوں اور انہوں نے اس احتجاج کو یہ شکل دے دی ہو۔ ان واقعات کی سیاسی اور عسکری ہر دو سطح پر شدید مذمت کی گئی۔اعلی عدلیہ کی جانب سے بھی عمران خان سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ ان واقعات کی مذمت کریں جو انہوں نے قدرے تامل کے بعد کچھ تاخیر سے ہی سہی مگرانہیں مذمت کرنا پڑی۔ان واقعات کے نتیجے میں تحریک انصاف پر بہت تنقید ہوئی اور سیاسی محاذ پر اسے اس کا دفاع کرنا مشکل ہوا۔ایک سیاسی جماعت کے طور پر تحریک انصاف کی حکمت عملی ،طریقہ کار اور مقاصد پر تنقید کی جاسکتی ہے اور وہ کی بھی گئی ہے۔ اپریل 2022 کے بعد اپنی حکومت کے خاتمہ کے بعد سے عمران خان کے فیصلوں کو سیاسی اعتبار سے نا مناسب سمجھا گیا جس کا انہیں اور ان کی جماعت کونقصان بھی اٹھانا پڑا تاہم اس کے باوجود عمران خان اپنی جماعت کی مقبولیت قائم رکھنے میں کامیاب رہے۔موجودہ اتحادی حکومت کا پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیوں کے انتخابات سے گریز کی ( ممکن ہے) دیگر وجوہ بھی ہوں مگر عمران خان کی مقبولیت کا خوف ان سب سے سوا تھا یہ عمران خان اور ان کی جماعت کی بد قسمتی تھی کہ نو مئی کا واقعہ ہوگیا عمران کی مقبولیت خود ان کے لئے مصیبت بن گئی۔یہ بات اظہر من الشمس تھی کہ عمران خان کی گرفتاری حکومت اور اس کے اداروں کے لئے ایک مشکل ترین ہدف ہوگی۔ حکومت کے اکابرین کی شدید خواہشات کے باوجود ایسا کرنا ممکن نہیں ہو پارہا تھا۔عمران خان نے اپنی گرفتاری کے معاملہ پر کارکنوں کو ذہنی طور پر اتنا پرجوش کردیا تھا کہ اس طرح کی پیش آمدہ صورتحال میں وہ سب کچھ کر گزرنے کے لئے تیار تھے۔وہ جس طرح سینکڑوں کارکنوں اور محافظوں کے حصار میں عدالتوں میں پیشی کے لئے آتے تھے اس میں ا نہیں گرفتار کرنا ممکن نہیں تھا ۔اور پھر نو مئی آگیا ۔عدالت میں پیشی کے لئے آئے ہوئے عمران خان کو جس بھونڈے انداز سے گرفتار کیا گیا ا س سے تحریک انصاف کے کا رکنوں کا ، جنہیں ذہنی طور پہلے ہی تیار کیا ہوا تھا ، مشتعل ہو جانا یقینی امر تھا اور پھر وہ سب کچھ ہوا جو ہر گز نہیں ہونا چاہیئے تھا۔مگر اس کے بعد اب جو کچھ تحریک انصاف کے ساتھ ہو رہا ہے وہ بھی ٹھیک نہیں ہے ۔جو لوگ نو مئی کے پر تشدد واقعات میں ملوث ہوں صرف انہیں ہی قانونی طریقہ سے گرفتار کیا جانا چاہیئے ۔مگر جس انداز سے پورے ملک کی سطح پر کارکنوں اور رہنمائوں کو گرفتار کیا جارہا ہے، مقدمات بنائے جارہے ہیں اہل خانہ کو ہراساں کیا جارہا ہے اس کی تائید کیسے ممکن ہو۔ پھر یہ کہ گزشتہ دس بارہ روز میں جس طرح اس جماعت میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوا ہے اور جس تیزی سے اس جماعت سے علیحدگی کا عمل جاری ہے وہ سیاست اور اہل سیاست کے لئے ہر گز خوش آئند نہیں ہے۔ یہ بات توطے ہے کہ علیحدگی کا یہ عمل رضاکارانہ نہیں ہے ۔ سیاسی جماعتوں کو غیر سیاسی طریقہ سے ختم کرنا یا ان کی ہیئت اور حجم کو کم کرنے کی حکمت عملی ایک ناپسندیدہ صورتحال ہے ۔یہ کل بھی (2018 ) جب پاکستان مسلم لیگ نواز کے لئے یہ عمل کیا جارہا تھا ناپسندیدہ غیر سیاسی عمل تھا بالکل اسی طرح یہ عمل جب آج تحریک انصاف کے ساتھ ہو رہا ہے ہر گز لائق تحسین نہیں۔مگر پاکستان کے سیاستدان یہ بات نہیںسمجھتے ۔ کل جب مسلم لیگ سے لوگ الگ کئے جارہے تھے تو تحریک انصاف اسے اپنی مقبولیت سمجھ رہی تھی اور شاد تھی جب کہ مسلم لیگ اسٹیبلشمنٹ سے ناراض اور شکوہ کناں جب کہ آج جب تحریک انصاف اس عمل سے دوچار ہے تو مسلم لیگ اور دیگر سیاسی جماعتیں جو تحریک انصاف کی مخالف ہیں وہ مسرور و مطمئن نظر آرہی ہیں حالانکہ پاکستان کی تمام ہی سیاسی جماعتیں سیاسی عروج و زوال کے پس پردہ عوامل سے بخوبی واقف ہیں اور اس تجربہ سے گزرتی بھی رہی ہیں مگر اس کے باوجود اس غیر سیاسی عمل کی راہ میں رکاوٹ بننے کے لئے تیار نہیں ۔ سیاسی جماعتوں کا یہ غیر سیاسی اور غیر جمہوری طرز عمل ہی ان کی کمزوری کا ایک اہم سبب ہے۔جب بھی کسی سیاسی حکومت کو غیر سیاسی طریقہ سے کمزور یا الگ کیا جاتا ہے تووہ خوب آواز بلند کرتی ہیں مگر اپنی مخالف سیاسی جماعت کی حکومت کے خلاف جب یہی عمل دہرایا جارہا ہوتا ہے تو وہ اسے اپنے لئے خوش آئند جانتے ہوئے تحسین کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کا پیمانہ عوامی رائے ہے جس کا اظہار وہ انتخابات میں کرتے ہیں ۔انتخابات کے آزادانہ عمل سے ہی سیاسی جماعتیں پھیلتی اور سکڑتی ہیں ۔سیاسی جماعتوں کو اس سے مفر نہیں ۔غیر سیاسی قوتوں کو بھی سیاسی کاریگری سے اب مجتنب ہو جانا چاہیئے۔ریاست ،سیاست اور سیاسی جماعتوں کے لئے یہ ہی بہتر راستہ ہے ہاں مگر کوئی سمجھے تب !! ٭٭٭٭٭٭