ملکی مسائل کا پس منظر سمجھنے کے خواہش مند لوگ جمع تھے۔ ان کی مہربانی کہ مجھے مدعو کر لیتے ہیں۔گفتگو تو بہت ہوئی۔ایک جملہ لکھ دیتا ہوں جس پر سب نے میری رائے سے اتفاق کیا: جو ریاست ہمسائے اور خطے میں وقوع پذیر مسلح تنازعات اور اپنے غیر مسلح شہریوں کے سامنے بے بس ہو جائے وہ ناکام ریاست ہوتی ہے۔کچھ عرصہ پہلے کوئی پوچھتا تو میں بتاتا کہ جو ریاست اپنے نان سٹیٹ مسلح گروہوں کے سامنے بے بس ہو جائے وہ ناکام کہلاتی ہے۔1977ء میں اگر کوئی یہی سوال کرتا تو میں بتاتا کہ جب ریاست عوام کے حق اقتدار کو چھین لے تو وہ ناکام ثابت ہوتی ہے۔1970-71ء کے تناظر میں تشریح کرنا ہوتی تو میں کہتا جب سیاسی قوتیں جمہوری اصولوں کو چھوڑ کر اقتدار سے چمٹتی ہیں تو ریاست ناکام ہو کر ٹوٹ جاتی ہے۔درمیان میں افغانستان کا مسلح تنازع بھی آیا۔جس کے اثرات سے سارے ملکوں نے خود کو بچایا۔پاکستان نے امریکی کارندے کے طور پر ایک کردار ادا کیا۔اس کے اثرات کئی شکلوں میں ریاست کو آگے بڑھنے سے اب تک روک رہے ہیں۔ ناکامی کے حوالے سے جو پہلا جملہ لکھا اس کو یوکرین روس جنگ اور کراچی میں تاجروں کے ہاتھوں کراچی الیکٹرک کے عملے کی درگت کے تناظر میں سمجھیں۔یوکرین جنگ سے یورپ کو خوراک و گیس کے مسائل لاحق ہوئے اور پاکستان کو اس سے بھی بھیانک بحران کا سامنا کرنا پڑا۔پاکستان کیسے اس کے اثرات کی لپیٹ میں آیا اس پر مستقبل میں چونکا دینے والی رپورٹس آئیں گی۔عمران خان کے دورہ روس کی بات ہو گی‘ کچھ کلاسیفائیڈ مطالبات کی بات ہو گی۔کچھ شخصیات کے فیصلوں کی بات ہو گی اور اس تاثر کی بات ہو گی جو عوام میں قوت پکڑتا رہا لیکن حکران طبقات اس سے بے خبر رہے۔ کوئی ایک واقعہ بظاہر وہ اہمیت نہیں رکھتا کہ اس کی بنیاد پر پوری ریاست کی کامیابی یا ناکامی کا منظر نامہ بنا دیا جائے۔یہ اعتراض میرے کہے پر ایک دوست نے کیا۔ان کا کہنا تھا کہ کراچی الیکٹرک کے آٹھ دس افرا بجلی کے نادہندہ تاجروں کی بجلی کاٹنے گئے اور انہیں یرغمال بنا لیا گیا۔یہ کوئی بڑی بات نہیں۔میں نے کہا واقعہ چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا اس کے اثرات اور وجوہ سنگینی کا تعین کرتی ہیں۔پاکستان کی سیاسی قوتوں نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا۔پی ٹی آئی حکومت کو اقتدار میں آئے ایک سال ہوا تھا کہ جنرل باجوہ نے اپوزیشن سے رابطہ کر لیا۔یہ بات خواجہ آصف ٹی وی انٹرویو میں بتا چکے ہیں‘ غلط ہے تو خواجہ آصف کو پکڑ کر سچائی جاننی چاہیے۔ سیاسی قوتوں نے جمہوری اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے سولہ ماہ کا اقتدار پسند کیا۔ جو پروپیگنڈہ کیا گیا اس کے مطابق پی ڈی ایم عمران خان دور میں ہونے والی مہنگائی کا خاتمہ کرے گا۔پی ڈی ایم آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی بحال کرائے گا‘ پی ڈی ایم ڈالر کے نرخ ایک سو چھہترروپے سے نیچے لائے گا۔ آج کے حالات پر نظر ڈالیں پٹرول اور ڈالر کی قدر کہاں سے کہاں چلی گئی۔برآمدات کی شرح تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ملک میں روس سے سستی گندم آئی لیکن آٹا پھر بھی ساڑھے پانچ ہزار روپے فی من کو چھو رہا ہے۔ عوامی غصے کی نمایاں وجہ بجلی کے بلوں میں ناجائز اضافے ہیں۔ستمبر میں بتایا جاتا ہے کہ آپ نے دو ماہ پہلے جولائی میں جو بجلی استعمال کی تھی اس کی قیمت بڑھا دی گئی ہے۔صارف بیچارہ جولائی اگست کا بل جمع کرا چکا ہوتا ہے اسے لگتا ہے کہ محکمہ بجلی اس سے واجبات نہیں بھتہ وصول کر رہا ہے۔ جب چاہا پچھلے واجبات کے نام پر بدمعاشی شروع کر دی۔سوشل میڈیا پر ملک کے مختلف حصوں سے پوسٹ ایسی کچھ ویڈیو نظر سے گزری ہیں جہاں لوگوں نے میٹر ریڈر کو گھیر رکھا ہے‘ کچھ جگہ بجلی کا میٹر کاٹنے کے لئے آنے والوں پر صارفین نے حملہ کر دیا۔لوگ بجلی بلوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔حکمران طبقات نے اپنی لوٹ مار کا سارا خرچ ملک کا خسارہ ظاہر کر کے بجلی کے بلوں میں ڈال دیا ہے۔عام آدمی کو بتایا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف کے مطالبے پر ایسا فیصلہ دل پر پتھر رکھ کر کیا لیکن کوئی یہ نہیں بتا رہا کہ آئی ایم ایف جو قرض دیتا ہے اس کے حصے بخرے کس کس جیب میں جاتے رہے ہیں۔یہ صورت حال اس وقت ظالمانہ محسوس ہوتی ہے جب غریب کو ایک پنکھا اور بلب جلانے پر 5000بل آ جاتا ہے لیکن گاڑیوں بنگلوں والے صاحب مفت کی سہولت اٹھاتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر ریاستی نظام سے مایوس ہو چکا ہے۔ لوگ اپنی مجلسوں میں بلاتے ہیں کہ میری رائے سُنیں۔وہ توقع کرتے ہیں کہ میں ان کے مسائل کا حل بتائوں۔میرے متعلق ان کا گمان اچھا ہے لیکن میں پھر بھی مایوس رہتا ہوں۔شائد میں زمین سے جڑا آدمی ہوں اس لئے جڑیں کھوکھلی ہونے کا احساس مجھے زیادہ محسوس ہو رہا ہے۔ بیرسٹر نسیم احمد باجوہ کو لندن واپس جانا تھا۔ہماری ملاقات ایک گھنٹے پر محیط رہی۔ ان کی شفقت کہ مخاطب کو گفتگو کا پورا موقع دیتے ہیں۔یہ شائستگی اور آداب کم ہی دیکھنے کو ملے۔اکثر لوگ صرف اپنی کہتے ہیں باجوہ صاحب چاہتے ہیں کہ پاکستانی قوم مسائل سے نکل کر آگے بڑھے۔وہ 55سال پہلے پیپلز پارٹی کا ساتھ دے کر ایک کوشش کر چکے ہیں۔ جب قوم کا بازو مروڑا گیا تو باجوہ صاحب بھی لندن چلے گئے۔مالی آسودگی ہے‘ پریکٹس اچھی ہے۔اولاد کامیاب۔اب وہ سال میں تین چار بار پاکستان آتے ہیں۔ لوگوں سے ملتے ہیں‘ انہیں حوصلہ دیتے ہیں۔ہم دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ ریاست کے وسائل اور اختیار پر قابض طبقات اب ایک بوجھ بن چکے ہیں۔ عوامی سطح پر یہ احساس تقویت پا رہا ہے کہ اس بوجھ سے جس قدر جلد نجات حاصل کر لی جائے عام آدمی کا معیار زندگی اسی قدر جلد بہتر ہو سکتا ہے۔