پاکستان نے مالیاتی ضرورت پوری کرنے کے لئے آئی ایم ایف سے نیا قرض پروگرام لینے کی تیاری شروع کر دی ہے۔حکام کا خیال ہے کہ نئے قرض کا حجم سات ارب ڈالر کے لگ بھگ رکھا جائے۔ماہرین اس سلسلے میں بنگلا دیش ماڈل کو پیش نظر رکھ کر نئے قرض پیکج کی سہولت حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔قرض در قرض بھنور میں گرفتار پاکستانی معیشت کی بحالی نئی حکومت کی پہلی ترجیح ہو گی۔آئی ایم ایف سے لیا گیا قرض نئی حکومت کی ابتدائی منصوبہ بندی میں معاون ثابت ہو سکتا ہے،تاہم بنگلہ دیش ماڈل سے کیا پاکستان فائدہ اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ پاکستان انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ بنگلہ دیش کی طرز کے معاہدہ کر کے اس پروگرام کو 7.5 سے 8 بلین ڈالر تک بڑھانے کے امکانات کو فعال طور پر تلاش کر رہا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان عالمی مالیاتی فنڈ کے بیل آؤٹ پیکج میں اضافے کے لیے مختلف تجاویز پر غور کر رہا ہے۔پاکستان خصوصی استحقاق کے مخصوص کوٹے کے تحت آئی ایم ایف کے فنڈ کو 6 ارب ڈالر سے بڑھا سکتا ہے۔اس استحقاق میں موسمیاتی تغیر اور قدرتی آفات کی بنیاد پر درخواست میں نئی ضروریات کو شامل کرنا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان نے جون 2023 کے سٹینڈ بائی پروگرام میں فنڈ میں اضافے کی درخواست کی تھی تاہم اس وقت آئی ایم ایف نے معاملے کو اگلے پروگرام تک ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا۔توسیعی فنڈ سہولت پروگرام کو وسعت دینے کے لیے ماہرین گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان میں موسمیاتی تباہ کاریوں کی بنیاد پر موسمیاتی فنانس سہولت لینے کے خواہاں ہیں۔آئی ایم ایف ضابطے کے تحت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ موسمیاتی تبدیلی اور وبائی امراض سے نمٹنے والے ممالک کے لیے سستی اور طویل المدتی فنانسنگ فراہم کرتا ہے۔ اسی لئے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے ساتھ کلائمیٹ فنانس کا اطلاق بھی ہو سکتا ہے۔اگر اس انتظام کو حتمی شکل دی جاتی ہے تو پاکستان خصوصی ڈرائنگ رائٹس کے تحت دستیاب مخصوص کوٹے کو مدنظر رکھتے ہوئے EFF کے تحت پروگرام کا حجم 6 بلین ڈالر سے بڑھا کر 7.5 سے 8 بلین ڈالر کر سکتا ہے۔اگلے مالیاتی سال میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور دو ماہ بعد ایک ارب ڈالر کے یورو بانڈ پر منافع کی ادائیگی کی خاطر زرمبادلہ کی زیادہ ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ پاکستان بنگلہ دیش کی طرز پر پیکج لینے کے لئے الگ سے غور کر رہا ہے تو یہ جاننا ہو گا کہ اس پیکج کی شرائط کس طرح پاکستان کے لئے مفید ہو سکتی ہیں۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے گزشتہ برس بنگلہ دیش کے لیے مختص 4.7 بلین ڈالر کے قرض پیکیج کی دوسری قسط میں 689 ملین ڈالر کے اجراء کی منظوری دی ۔قرض دیتے ہوئے آئی ایم ایف نے بنگلہ دیش کو مشورہ دیا کہ وہ افراط زر پر قابو پانے اور بیرونی وسائل میںاضافے پر توجہ مرکوز رکھے۔بنگلہ دیش کی معیشت کو کئی جھٹکے لگ چکے ہیں۔ یوکرین میں روس کی جنگ اور عالمی مالیاتی سختی نے وبائی امراض نے معاشی ترقی میں خلل ڈالا ہے، مالی سال 23 20میں حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو 6 فیصد تک گر گئی اور افراط زر اگست 2023 میں 9.9 فیصد سالانہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔دیکھا جائے تو پاکستان کے حالات بنگلہ دیش سے کہیں زیادہ سنگین ہیں جہاں افراط زر چالیس فیصد کو چھو رہا ہے اور جی ڈی پی تین فیصد سے کم ہے۔آئی ایم ایف کے بنیادی مقاصد میں محفوظ مالیاتی استحکام، بین الاقوامی تجارت کو آسان بنانا، اعلیٰ روزگار کو فروغ دینا، پائیدار اقتصادی ترقی اور دنیا بھر میں غربت میں کمی لانا ہے۔ آئی ایم ایف اپنے ہر رکن کے ساتھ باقاعدہ مکالمہ کرتا ہے اور پالیسی مشورے پیش کرتا ہے۔پاکستانی حکام کو عالمی ادارے سے قرضوں سے نجات کی بابت ضرور مشاورت کرنا چاہئے۔بہت سے ممالک ہیں جنہوں نے آئی ایم ایف سے قرض لے کر اپنی مالیاتی مشکلات پر قابو پایا۔وہ ملک مشکلات کا بوجھ بڑھا بیٹھتے ہیں جو قرض کی رقم کو غیر دانشمندانہ انداز میں استعمال کرتے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرضوں کے حوالے سے ارجنٹائن 46 ارب ڈالر کے ساتھ پہلے، مصر 18 ارب ڈالر کے ساتھ دوسرے، یوکرین 12.2 ارب ڈالر کے ساتھ تیسرے نمبر پر، ایکواڈور 8.2 ارب ڈالر کے ساتھ چوتھے نمبر پر اور ایک سال پہلے پاکستان 7.4 بلین امریکی ڈالر کے ساتھ پانچویں نمبر پر تھا۔نئے قرضے ملنے پر یہ زیادہ مقروض ملکوں میں شامل ہو جائے گا۔ بتایا گیا ہے کہ پاکستان نے جون 2023 میں سٹینڈ بائی انتظامات کے آخری پروگرام کو حتمی شکل دیتے وقت پروگرام کے حجم میں اضافے کے امکان پر عالمی ادارے سے بات کی تھی لیکن آئی ایم ایف نے آخری لمحات میں اس درخواست پر غور نہیں کیا کہ یہ ایک مختصر مدت کا پروگرام ہے۔لچک اور پائیداری کی سہولت (RSF) IMF کی ایک سہولت ہے جو ادائیگیوں کے توازن کو لاحق خطرات کو کم کرنے کے لیے سستی، طویل المدتی فنانسنگ فراہم کرتی ہے۔یہ سہولت اقتصادی لچک اور پائیداری کو مضبوط کرنے کے لیے طویل المدتی فنانسنگ فراہم کرتی ہے۔پاکستان کے مالیاتی مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے جا رہے ہیں،حکومتیں داخلی طور پر آئی ایم ایف پر تنقید کرتی ہیں جبکہ عملی طور پر اس سے تعاون کی درخواست کرتی ہیں۔یہ قومی پالیسی میں ابہام کا باعث بنتا ہے۔حکومت نئے قرضوں کی بابت قوم کو اعتماد میں لے اور پھر بھرپور منصوبہ بندی کر کے افلاس زدہ طبقات کی زندگی آسان بنانے کے لئے وسائل کو بروئے کار لائے ۔