چلیں یہ مان لیا کہ ریاست سے کوئی لڑ سکتا ہے نہ ہی کوئی اس میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ جو گمراہ اور شرپسند عناصر ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف عوام کو اُکساتے ہیں، وہ بھی برابر کے مجرم ہیں اور انہیں بھی وہی سزا ملنی چاہیے جو ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کو ملتی ہے۔ چلیں یہ بھی مان لیا کہ ریاست کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی املاک کی حفاظت کرے اور ذمہ داران کے خلاف ضروری کارروائی کرے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کاغذی شیر جو اس وقت پی ٹی آئی چھوڑ رہے ہیں،انہیں معلوم نہیں تھا،کہ انقلاب لانے کے لیے جدوجہد ضروری ہوتی ہے۔ انہوں نے مائوزے تنگ کا انقلاب نہیں پڑا تھا؟ انہوں نے نیلسن منڈیلا پر ہونے والے تشدد اور کئی دہائیوں کی جیل تاریخ میں نہیں پڑھی تھی، انہوں نے چی گوئیرا کی جدوجہد کو نہیں پڑھا تھا؟ انہوں نے گاندھی جی کا نمک مارچ بھی نہیں پڑھاتھا؟ چلیں دور نہ جائیں کیا انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو یا نصرت بھٹو کے بارے میں بھی نہیں پڑھا تھا کہ جنہیں بھٹو کی پھانسی کے بعد کن اذیت ناک سزائوں اور قید وبند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا تھا۔ یہ تو تھوڑی سی صعوبتیں اور مصیبتیں بھی برداشت نہ کر سکے۔ انہوں نے تو واقعی ثابت کر دیا ہے کہ یہ لوگ حقیقت میں ’’ممی ڈیڈی‘‘ ہیں۔ آپ فواد چوہدری کو دیکھ لیں،مجھے اُس سے اختلاف ہے کہ اُس نے اپنی سیاست کو ہمیشہ داغدار کیا ہے۔وہ پہلے پرویز مشرف کی پارٹی کے ساتھ منسلک رہے، پھرمارچ 2012ء میں پیپلزپارٹی میں آئے اوروزیر اعظم گیلانی و پرویز اشرف کے مشیر خاص رہے۔ پھر 2013ء میں ق لیگ کی سیٹ پر الیکشن لڑا اور سیٹ ہارے،،، پھر 2016ء میں تحریک انصاف میں آئے اور یہاں ہر طرح سے اُنہیں عزت دی گئی، وہ 2016ء میں تحریک انصاف کی سیٹ پر ضمنی الیکشن ہارنے کے باوجود اُنہیں پارٹی نے عزت دی اور تحریک انصاف کا ترجمان بنا دیا۔ پھر 2018ء میں اُنہیں اضافی چارج سیکرٹری انفارمیشن کا دے دیا گیا۔ پھر فواد صاحب تحریک انصاف ہی کی سیٹ پر 2018ء کا الیکشن جیتے اور ایم این اے بنے اور ساتھ ہی اُنہیں وفاقی کابینہ کا وزیر بناتے ہوئے وزرات اطلاعات سونپی، پھر وزیر سائنس و ٹیکنالوجی بنے، لیکن دوبارہ وزرات اطلاعات کے مستحق قرار پائے۔ اور جماعت پر برا وقت آنے سے پہلے تک وہ سیٹیں انجوائے کرتے رہے ، مگر جیسے ہی جماعت پر برا وقت آیا تو تحریک انصاف ہی کو خیر آباد کہہ دیا ۔ پھر فیاض الحسن چوہان کو دیکھ لیں۔ تحریک انصاف سے پہلے کیا کوئی اُنہیں جانتا تھا؟ ماسوائے اس کے کہ موصوف 2002ء میں متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کا الیکشن جیتے ۔ اس کے بعد چوہان صاحب 2018تک نا تو کوئی الیکشن جیت سکے اور نہ ہی کوئی خاص عہدہ حاصل کر سکے۔ بلکہ اُن کے بارے میں تو یہ کہا جا سکتا تھا کہ وہ تو کونسلر کا الیکشن بھی نہ جیت سکتا اگر تحریک انصاف کی ٹکٹ کا ساتھ نہ ہوتا ۔ بلکہ یہ تو بھلا ہو تحریک انصاف کا کہ یہاں موصوف صوبائی اسمبلی کا الیکشن جیتے تو ساتھ ہی وزیرا علیٰ کے مشیر خاص بھی بنادیے گئے اور انفارمیشن منسٹر برائے پنجاب بھی بناد یے گئے، پھر موصوف وزیر جیل خانہ جات بھی رہے۔ لیکن بجائے احسان مند ہونے کے اُلٹا گزشتہ روز تحریک انصاف ہی کے خلاف پریس کانفرنس کر ڈالی اور اپنے قائدین کے خلاف ایسے ایسے الفاظ بولے کہ بس رہے رب کا نام ! پھر جمشید اقبال چیمہ اور اُن کی بیگم کو دیکھ لیں، ان صاحب کو تو عمران خان نے سیاست میں انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا۔ یہ موصوف تو ممبر قومی اسمبلی بھی نہیں تھے مگر پھر بھی انہیں پارٹی میں اہم عہدے دیے گئے اور حکومت میں بھی یعنی 2021ء میں سپیشل اسسٹنٹ ٹو پرائم منسٹر برائے فوڈ تعینات رہے۔ مگربرا وقت آیا تو خان کے خلاف پریس کانفرنس کھڑکا دی۔ پھر آپ میاں جلیل احمد شرقپوری کی بات کر لیں، آج یہ جو شور مچا ہوا ہے اور ہر دوسرے دن وہ پریس کانفرنس کر رہے ہیں وہ تو آج تک کسی ایک جماعت کے رہے ہی نہیں۔ نہیں یقین تو تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیںکہ وہ 2002ء میں مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے ایم این اے کی سیٹ جیتتے ہیں، پھر 2011ء میں مشرف کی اے پی ایم ایل پارٹی میں چلے جاتے ہیں، وہاں کچھ نصیب نہیں ہوتا تو 2012ء میں تحریک انصاف کو جوائن کر لیتے ہیں، اور 2013ء میں خود ساختہ علیحدگی اختیار کر لیتے ہیں اور پھر 2015ء میں تحریک انصاف کو دوبارہ جوائن کرتے ہیں۔ لیکن 2018ء کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کی طرف سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن جیتتے ہیں مگر ساتھ ہی ن لیگ کے منحرف اراکین میں شامل ہو جاتے ہیں اور پی ٹی آئی کے لیے دوبارہ وفاداریاں پیش کر دیتے ہیں۔ تو ایسے بندے کا تحریک انصاف کے چھوڑ جانے پر میڈیا پر اتنا واویلا ہونے سے یہ تاثر قائم نہیں ہوتا کہ حقیقت میں تحریک انصاف کو بدنام کیا جا رہا ہے؟ پھر آپ اسد عمر کو دیکھ لیں ، 2012ء میں وہ تحریک انصاف جوائن کرتے ہیں، 2013ء میں الیکشن جیت جاتے ہیں، پارٹی اُنہیں پارلیمنٹ کی مختلف کمیٹیوں میں نمائندگی کے لیے منتخب کرتی ہے، پھر 2018ء میں دوبارہ منتخب ہوتے ہیں تو فیڈرل منسٹر برائے خزانہ بنا دیے جاتے ہیں، مگر وہاں وہ متاثر کن کارکردگی نہیں دکھاتے ، پارٹی اُنہیں پھر بھی سٹیپ ڈائون نہیں کرتی اور دوسری وزارت سے نوازتی ہے۔ پھر آپ چوہدری وجاہت حسین کو دیکھ لیں، چوہدری شجاعت حسین کے بھائی ہیں، وہ تو پہلے ہی ق لیگ کے ہیں تو اُن کے جانے پر اتنا شور کیوں؟ حالانکہ وجاہت حسین کی ’’بہادری ‘‘ کا بڑا چرچا سنا تھا مگر لگتا تو یہ ہے کہ یہ بس چھوٹی موٹی بدمعاشیاں کرتے رہے ہیں، بلکہ یہ تو سب سے ہلکے بہادر نکلے ہیں۔ یقین مانیں ان سب سے تو بہتر مجھے رانا ثناء اللہ لگنا شروع ہوگئے ہیں، حالانکہ میرے خیالات اُن کی سیاست کے حوالے سے کبھی اچھے نہیں رہے، مگر آج ان جعلی انقلابیوں کو دیکھتے ہوئے اُنہیں سلام ٹھوکنے کو دل کر رہا ہے کہ اُنہیں کس طرح مبینہ طور پر ایک جھوٹے منشیات کے کیس میں اندر کیا گیا اور ایک سال سے زائد عرصہ اُسے جیل میں رکھا۔ آپ سعد رفیق کو دیکھ لیں، کونسی صعوبتیں برداشت نہیں کیں، تحریک انصاف کے دور میں بھی اور پرویز مشرف کے دور میں بھی۔ کیا وہ یا اُس کے بھائی سلمان رفیق نے پارٹی چھوڑی؟ آپ ان رہنمائوں کو چھوڑیں کیا کسی نے تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا۔ کہ کس طرح جنرل ضیاء الحق یا جنرل پرویز مشرف نے سیاستدانوں پر چن چن کر ظلم کیے تھے۔ لیکن ان سب کو ایک دم حب الوطنی یاد آگئی ہے، کیا یہ سب لوگ پہلے سوئے ہوئے تھے؟ حالانکہ ان سب میں سے بہتر تو شیری مزاری ہیں جنہوں نے باعزت طریقے سے پارٹی چھوڑی ہے۔ لیکن میں نے دنیا میں یہ واحد پارٹی دیکھی ہے جس کے بڑے بڑے عہدیداران ایسے پارٹی چھوڑ رہے ہیں جیسے وہ اس ٹیم کا کبھی حصہ ہی نہیں تھے، لہٰذاعوام سے گزارش ہے کہ اپنے اپنے حلقوں میں خبر لیں اور اُنہیں کبھی دوبارہ ایوان میں آنے کا موقع نہ دیں ورنہ ہمارے ایوان میں موقع پرستوں کی تعداد مزید بڑھتی جائے گا اورحقیقی سیاست ختم ہوتی جائے گی! اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو!