دنیا کا واحد ملک جہاں گوداموں میں پڑا ہوا مال راتوں رات ایک کروڑ سے دو کروڑ ہو جاتا ہے یہ کیسے ممکن ہے کبھی کسی نے غور کیا ہے اس میں ریاست کی نااہلی ہے یا واقعی اس تاجر کی خوش قسمتی، ان میں سب سے زیادہ ضروریات زندگی مثلا خوراک سے منسلک اجناس ہوتی ہیں۔ گندم چاول دالیں سبزیاں اور دوسری اشیا شامل ہیں موجودہ سال 68 لاکھ ٹن گندم کا تخمینہ تھا ۔ 90 لاکھ ایکڑ رقبے پر گندم کاشت ہوئی ہے اس کے باوجود ایک کلو آٹا ایک سو پچیس روپے یا 150 روپے تک مارکیٹ میں ملتا ہے یہی حال چینی کا ہے۔ دالیں اتنی مہنگی ہوچکی ہیں کہ گوشت کے برابر ہیں چکن کا ہی حال دیکھ لیں عرصہ دس سال سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ریاست نے شہریوں کو ان تاجروں کے رحم و کرم پر ہی چھوڑ دیا ہے۔ پہلے پہل صرف ایک مجسٹریٹ ہی ہوتا تھا جس کا بڑا رعب دبدبہ ہوتا تھا چند ایک دکانداروں کے چالان ہوتے تھے باقی سب عبرت پکڑ لیتے آج بدترین صورتحال یہ ہے کہ بڑے بڑے گوداموں میں جس کا مال پڑا ہوتا ہے وہی اجناس کے ریٹ طے کرتا ہے ان تاجروں کا ایک واٹس ایپ گروپ ہے جو رات گئے باہمی مشورے سے نرخ بناتا ہے اور وہی صبح ہر جگہ پہنچ جاتا ہے۔ اس ساری صورتحال میں ریاست یا ریاستی ادارے کہیں نظر آئیں تو ضرور بتائیے گا سب سے بدترین پہلو ناقص گھٹیا اور دو نمبر اشیاء کی فراوانی ہے جس کی پہچان عام صارف کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی ریاست کے تخمینے ایسے ہوتے ہیں کہ ہر چیز وافر مقدار میں موجود ہے فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے مگر پھر اچانک وہ چیز مارکیٹ سے غائب ہو جاتی ہے۔صارف بھی پاگلوں کی طرح اسی کے پیچھے بھاگتا ہے عام ضروریات زندگی کی اشیاء ایسے مل رہی ہوتی ہیں جیسے یہ ممنوعہ اشیاء یا نشہ آور ہیں۔ ڈپٹی کمشنر کے دفتر چلے جائیں وہاں آپ کو ہر چیز کا ریکارڈ ملے گا ہر ضلع کی کتنی پیداوار ہے اور کتنا استعمال اور دوسرے اضلاع سے کون کون سی اشیاء آتی ہیں اور ضلع سے کتنی جاتی ہیں پورا ایک نیٹ ورک ہے مگر اس کے باوجود سارا سال شہری ان اشیا کی تلاش میں رسوا ہو رہے ہوتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر جہاں جاتے ہیں پروٹوکول اتنا ہوتا ہے کہ صاحب بہادر عام جگہ پر جا ہی نہیں سکتے ۔ ویسے بھی برٹش سمجھتے تھے کہ افسر اور عام آدمی میں فاصلہ رہنا چاہیے اگر عام آدمی اور بابو کے درمیان فرق ختم ہوگیا تو ہم حکومت کیسے کریں گے۔ امریکہ میں وہاںکا مئیر، پولیس چیف بڑے سے بڑا افسر حکومتی عہدیدار کیسے عام آدمی کی طرح زندگی گزارتا ہے اور عام آدمی کو پتہ تک نہیں ہوتا کہ کون آفیسر ہے اور کس کا تبادلہ کہاں ہوا اور ہمارے ہاں پٹواری تک کے تبادلے وزیراعلی تک جا پہنچتے ہیں۔ معاشی بحران میں ایمانداری برقرار رہنا ممکن ہی نہیں اسی لئے اوپر سے نیچے تک بے ایمانی اور کرپشن کو برا نہیں سمجھا جاتا آخر ہم اہم عہدوں میں کشش کیوں ختم نہیں کرتے۔ ہر ماں باپ کا خواب ہوتا ہے کہ میری اولاد پڑھ لکھ کر ان عہدوں تک پہنچے جہاں تعلیم حاصل کرنے کا مقصد ہی گورنمنٹ کی ملازمت ہو وہاں کیا کہا جا سکتا ہے ایک افسر بنتا ہے پیچھے سارا خاندان ہی افسر بن جاتا ہے یہ عزت ہے یا ذمہ داری سب کو معلوم ہے ضلعی افسران ضلع کی سیاسی شخصیات تعینات کرواتی ہیں اور پھر ان سے جائز ناجائز کام کرواتی ہیں۔ انہی آفیسرز سے نچلی انتظامیہ اپنی مرضی سے لگواتے ہیں یہ نظام ایک دم سے تباہ نہیں ہوا جب یہ آفیسر ان کے ناجائز کام کرتے ہیں تو اپنے بھی ناجائز کر لیتے ہیں۔ صاف پانی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکا ہے فلٹریشن پلانٹس پر عوام کا رش عام سی بات ہے۔ دو نمبر دودھ بیماریاں پھیلانے والا گوشت پولٹری فارموں میں مرغیوں کو دی جانے والی خوراک تک زہریلی اور ناقص ہوتی ہے اور وہی چکن عوام دھڑا دھڑ کھا رہے ہوتے ہیں۔زائدالمعیاد مطلب ڈیٹ ایکسپائری کا تصور ہی نہیں کون چیک کرتا ہے بلکہ مارکیٹ میں تاریخ تبدیل کرنے والے سافٹ ویئر اور کمپنی کے چسپاں کاغذ پر اپنی مرضی کی تاریخ اور ایکسپائری سرعام لگائی جارہی ہے۔ میڈیکل کا پورا شعبہ ہی کرپٹ ہو چکا ہے جعلی ادویات ہر جگہ دھڑلے سے بیچی جا رہی ہیں جگہ جگہ میڈیکل سٹور کھل چکے ہیں۔ حکومت بھی موجود ہے ادارے بھی موجود ہیں تنخواہیں بھی دی جا رہی ہیں مگر نتیجہ صفر وجہ سیاسی عدم استحکام اور اداروں میں سیاسی مداخلت نے ڈر خوف ہی ختم کر دیا ہر کوئی اپنی من مانی کر رہا ہے اگر پکڑا بھی جائے تو آسانی سے باہر آ جاتا ہے ۔ کچھ عرصہ بعد عوام پھر الیکشن کی طرف جائے گی اور پھر زندہ باد مردہ باد کے بلند و بانگ دعوے شروع ہو جائیں گے پھر ایک کمزور سی حکومت بنے گی جو سب سے پہلے سو دن میں ریلیف دینے کا وعدہ کرے گی پھر تین ماہ اور پھر سابقین پر الزامات کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا دو سال گزریں گے عوام کو خوش کرنے کے لئے وزارتوں میں ردوبدل کر دیا جائے گا اور بیوروکریسی میں اکھاڑ بچھاڑ شروع ہو جائے گی اسی دوران خدانخواستہ کوئی آفت آگئی تو سارا ملبہ اسی آفت پر ڈالدیا جائے گا پسہ ہوا طبقہ تو ویسے ہی بے نیاز ہو چکا ہے وہ حالات کو تقدیر کا لکھا ہوا سمجھ کر خاموش ہے اس صورتحال کا حل کیا ہے کسی جگہ کوئی سوچ رہا ہے ایسا نہیں کہ زرداری نواز شریف اور عمران خان یا دوسری طاقتوں کو اس کا ادراک نہیں سب کو پتہ ہے مگر ہر کوئی اپنی طرز پر چلنا چاہتا ہے اور ناکام ہونے پر ملبہ دوسرے پر ڈالنیکا عادی ہے کاش ان سب کو کسی بستی کی کریانے کی دکان پرجانا پڑتا اور دکاندار انہیں بتاتا کہ کیسے کیسے سفیدپوش معاشی طور پر تباہ حال ہو چکے ہیں اور پھر کسی ہسپتال میں جائیں جہاں بے حسی اور محرومیوں کا ماتم دیکھیں شاید یہ پتھر موم ہوجائیں انکے کلیجے منہ کو آجائیں اور اسی بستی میں گھروں میں بھوک افلاس کیوجہ سے لڑایاں دیکھیں کیسے ایک تہذیب ایک کلچر افلاس نگل رہی ہے۔