صفحہ ِکائنات خدا کی کتابت سے بھرا پڑا ہے۔صفحہ کتاب کا سینہ ہوتا ہے اور تحریر کتاب کا دل۔کتاب پڑھنے کے لیے گوشہ ِچمن نہیں ایک گوشہ ضروری ہے ۔باغ و بہار کتاب خود کر دیتی ہے۔جیسے باغ کے لیے بہار ضروری ہے انسان کے لیے کتاب اتنی ہی اہم ہے۔لغت کتاب کا ننھیال ہوتی ہے۔کتاب مہنگی ہونے سے شاعر سستا ہو گیا ہے۔اقبال کی شاعری سوئے ہووں کو جگاتی ہے اور جاگے ہووں کو رلاتی ہے۔ہماری شاعری ہمارے سامعین کو رلاتی ہے۔ مقطع اور مطلع کی تو سمجھ آتی ہے ان دونوں کے درمیان جو کچھ ہوتا ہے وہ سمجھ سے بالا تر ہوتا ہے اسی لیے اس کو کوئی نام نہیں دیا گیا۔کہا جاتا ہے نام ہی کافی ہے شاعر کہتا ہے کلام ہی کافی ہے۔شاعر ایک دوسرے کے روبرو ہوں تو روبرو کی بجائے دوبدو سے لگتے ہیں۔کتاب بہت چالاک شے ہے وہ ہمیشہ محبت کرنے والے کے گھر میں رہتی ہے۔کتاب دشمنی انسان دشمنی ہے۔کتاب بینی بادشاہی عادات میں شامل ہے۔چونکہ اب بادشاہ دنیا سے ختم ہو گئے ہیں کتاب بینی بھی ختم ہو گئی ہے۔کتاب قدیم ہو جاتی ہے اس کے مندرجات جدید ہوتے جاتے ہیں۔مصنف کا سٹاک ختم ہو سکتا ہے ناشر کا سٹاک کبھی ختم نہیں ہوتا۔کتاب زیست کا پہلا باب شباب ہوتا ہے جس کو منیر نیازی عذاب کہتے ہیں۔لوگوں کو نیازی کہلوانے کا بڑا شوق ہوتا ہے یقین نہ آئے تو کسی میانوالی کے آدمی کو دیکھ لیں خوشاب کا پل کراس کرتے ہی لوگ ہر میانوالی والے کو نیازی صاحب کہہ کر پکارتے ہیں۔نیازی اور نازی ملتے جلتے ہیں۔کتاب کا مواد اس کے ذائقے اور سواد کا پتہ دیتا ہے۔کتاب ہر صورت بکتی ہے خواہ ردی میں بکے۔مصنف اور کتاب ایک ہی شے کے دو پرتو ہیں مصنف خود باطن اور کتاب مصنف کا ظاہر ہے۔مجموعہ کلام کو مذبوحہ کلام کہنا روا ہے۔ کتاب آسمانی تحفہ ہے اور شاعری زمینی عطیہ ہے تعلق دونوں کا لفظ سے ہے۔شاعروں کو کتاب سے عشق تھا سو محبوب کا چہرہ بھی کتابی پسند آیا۔جیسے مرزا غالب نے کہا آم ہوں اور بہت سارے ہوں ہم کہتے ہیں کتابیں ہوں اور بہت ساری ہوں مگر وہ ساری ہماری ہی ہوں۔ملکیت نہیں لکھی ہوئی ہماری ہوں۔ایک شاعر ہیں ان کا نام ریاض قطبی ہے یہ کتبی ہونا چاہیے تھا۔کتابوں میں سب سے بری درسی کتب لگتی ہیں حالانکہ وہی زندگی کا پہیا چلاتی ہیں۔جیسے کہتے ہیں جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ جمیا ہی نہیں اسی طرح جس شاعر نے کتاب نہیں کروائی اسے پتہ ہی نہیں ناشر کیا شے ہے۔البتہ شاعروں کو پتہ ہے کہ حاشر کیا شے ہے۔جیسے ریلوے اسٹیشن کی گاڑیوں کے آنے اور جانے کے اعلانات ہوتے ہیں کہ خیبر اپ اور موسی ڈاون دن کے گیارہ بجے پلیٹ فارم سے روانہ ہوں گی بعینیہ جدید نظم کا بھی پتہ نہیں چلتا کہ کس طرف نکل جائے گی۔جیسے ریلوے گاڑیوں کو کانٹے والا حادثے سے بچاتا ہے اسی طرح عروض قاری کو نثری نظم سے محفوظ رکھتا ہے۔خدا عصر کی قسم کھاتا ہے اور کہتا ہے انسان یقینا خسارے میں ہے۔ہم سا سامع نثر کی قسم اٹھا کر کہتا ہے یقینا ً نثری نظم والے خسارے میں ہیں۔نثر نثر ہی ہوتی ہے خواہ ابولکلام آزاد کی ہو یا ابوالکلام مقید کی۔غبار خاطر کا واحد ذریعہ شعر ہی ہے۔ایک دم یا کائنات ہوتی ہے یا نثری نظم ویسے تو حادثہ بھی ایک دم نہیں ہوتا۔کاف نون یعنی کن سے ہی کونین بنا ہے۔دو کن ایک اس جہان والا ایک کن اگلے جہان والا۔یہ جہان عاقبت بناتا بھی ہے اور بگاڑتا بھی البتہ شاعر عروضی ہو یا غیر عروضی یعنی نثری شاعری والا دونوں جہان بگاڑ لیتا ہے۔صاحب کتاب سنا ہے اور صاحب نصاب بھی دونوں کو زکوۃ دینا عین فرض ہے۔شعر کی زکوۃ داد ہوتی ہے یا بے داد دونوں سے ادا ہو جاتی ہے۔خطاب سے خطبہ ہوتا ہے کتاب سے کتبہ۔ تفنن برطرف شعری نثر کو ہم نثر مانتے ہیں نثری نظم کو بھی نظم ماننے میں کوئی امر واقع نہیں ہونا چاہیے۔ مارکس کے بارے میں اقبال کا کہنا ہے کہ: آں کلیم بے تجلی آں مسیح بے صلیب نیست پیغمبر ولیکن در بغل دارد کتاب جیسے شاعری ہمارے عظیم فارسی شعرا نے کی ہے اور جس طرح انہوں نے انہوں نے شراب اور شراب کی آواز سے معنی مراد لیے ہیں اب ہوتے تو گردن زدنی ہوتے: از صراحی دو بار قلقل ِ مے پیش جامی بہ از چہار قل است عالم علم سے بنتا ہے تو کالم کلام سے بننا چاہیے تھا۔ایک معاشی سرگرمی ہوتی ہے ایک بدمعاشی سرگرمی ہوتی ہے۔ کالم نویسی معاشی بھی اور بدمعاشی سرگرمی بھی ہے۔کالم سے اخبار کا پیٹ بھرتا ہے کالم نگار کا نہیں۔آج کل کے سیاست دان کتاب کے ماہر نہیں حساب کتاب کے ماہر ہوتے ہیں۔دو اور دو چار ہوتے ہیں مگر ان کو بنانا سیاست دانوں سے پوچھیے۔جنگل میں مور ناچے تو کوئی نہیں دیکھتا البتہ کوئی ہور ناچے تو شاعر ضرور دیکھ لیتے ہیں۔کاتب کتاب مکتب سب ایک ہی خاندان سے متعلق ہیں اگر شاعر کتاب کا حلیہ نہ بگاڑ سکے تو کاتب ضرور بگاڑ دیتا ہے۔ اغلاط کی وجہ سے کتاب کتاب نہیں رہتی کاتب کاتب ہی رہتا ہے۔کاتب نہ شاعر بنتا ہے نہ قاری۔جو شاعر اپنے آپ کو اہل ِ کتاب سمجھتے ہیں وہ نااہل ِ کتاب ہوتے ہیں۔مابعد جدیدیت لایعنیت نہیں لا معنویت کو ترجیح دیتی ہے۔اقبال جادہ پیما ہونے کا درس دیتے تھے ناصر کاظمی قافیہ پیما ہونے کو ہی منزل سمجھتے رہے ہیں۔ادب پرور ابد پرور ہوتا ہے۔منیر نیازی کو پڑھ کر لگتا ہے کہ یہ تو اخیر نیازی ہیں۔