یہ دل پہ جو لکھی ہے اسے رقم کرنا دشوار ہی نہیں ، دشوار تر بھی ہے ۔ڈیپ سٹریٹ کا اردو ترجمہ گہری ریاست دل کو جچتا نہیں ۔دنیائے خیال کے جنگل میں مگر دشت وفا کی ہرنیاں کان میں سرگوشیاں کر رہی ہیں۔یہ شہر آسیب ہے۔ یہ ایسا نگر ہے جو کسی ضابطے کے بنا ۔ واقعات کے چہرے سے نقاب الٹتا رہتا ہے۔ کبھی چڑیلیں نظر آتی ہیںتو کبھی حوروں جیسی چڑیلیں۔مگر چلے تھے جس کی آرزو لے کر۔۔یہ وہ سحر تو نہیں ۔ یہ ملک نہیں ایک قافلہ ہے جو چلتا جا رہا ہے ۔ قافلے کے تھکے ماندے ،درماندہ مسافرصرف سوالیہ نظروں سے مکالمہ کر رہے ہیں۔ایک پوسٹ دیکھی جس کے مطابق ،75سال ہوگئے ،ُٹردے ُٹردے ۔۔ہُن تیک پاکستان نہیں آیا۔شاید خوابوں کے سوداگر،خواب بیچتے ہیں اور ہم جیسے خرید لیتے ہیں۔ کل ایک پنڈت سے ملاقات ہوئی ۔کہنے لگے، ایک ستارہ امتیاز 14اگست پر سابق سے سابق وزیر اعظم کو بھی ملنا چاہیے تھا ۔پوچھا کون کون ؟کہنے لگے پہلے عمران اور پھر میاں شہباز۔پوچھا کیوں؟ کس لیے؟ جواب ان کا آیا۔جمہوریت نامی دوشیزہ کی تجہیز و تکفین میں تعاون کے لیے ۔ایک دوسرے پنڈت پہلو بدلتے ہوئے کہنے لگے۔زلفی بھٹو کا طاقتور سیاسی قلعہ سندھ نہیں پنجاب تھا۔غازی ضیاء کی آشیر باد سے یہ قلعہ Shareefs نے چھین لیا ۔جب تک بی بی زندہ رہیں اس میں شریفس اور بدرز مل کر چھید کرتے رہے۔پھر یہ ہوا کہ بساط پر مہرے بدل گئے ۔آصف زرداری بادشاہ بن گئے اور جناب نے پنجاب کے پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک کے ساتھ و ہ کیا جو سابق صدر ضیاء الحق کو بھی نہ سوجھ سکا ۔ آج پنجاب میں پیپلز پارٹی بالکل یتیم ہے، شاید مسکین بھی ہو۔میاں نواز شریف سوچ رہے ہیں کہ پنجاب تو ہمارا سیاسی قلعہ تھا ۔گوال منڈیوں کی یوسی وغیرہ سے لے کر جی ٹی روڈ کے اطراف تک ۔ پی ٹی آئی نے اس میں ڈینٹ ڈالے ،چلینج پیدا کیے مگر پارٹی زندہ رہی۔مگر چھوٹے بھائی نے سوا سا ل میں یہ کیا کر دیا ؟کہ پارٹی گھٹنوں کے بل زمین پر سجدہ ریز ہوگئی۔جو ضیاء بھٹو کی پارٹی کے ساتھ نہ کر سکاوہ بھٹو کا داماد کر گیا ۔وہ سب جوپی ٹی آئی نہ کر سکی ،بڑی محبت سے ،بڑے ادب سے،بڑے احترام سے چھوٹے میاں صاحب کر گئے ۔ تمام تر نا لائقیوںکے با وجود پی ٹی آئی ہی اس وقت پنجاب کی مقبول ترین سیاسی جماعت ہے۔ میرا پسندیدہ موضوع بزدار کا عہد ہے مگر ستم تو یہ ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی کے مختصر دور میں پنجاب بیورو کریسی کی اعلیٰ ترین شخصیت نے چھٹی پر جانے کی درخواست دے دی۔جب اِن سائڈ سٹوری پر ہوم ورک کیا تو پتا چلا کہ چوہدری صاحب تو بیورو کریسی کی بڑی عزت کرتے تھے،جی ایم سکندر سے کامران افضل تک ۔مگر اصل مسئلہ مونس الہی تھے ۔ایک سینیئر بیوروکریٹ اس ساری صورت حال کے عینی شاہد تھے۔کہنے لگے کہ میری پوسٹنگ کے پی کے میں تھی ۔میری گریڈ 17کا محض ایک اسسٹنٹ کمشنر تھا ۔ ایک دن کسی طاقتور سیاست دان نے مجھے ایک کام کہا ۔رولز اجازت نہ دیتے تھے ، میں نے انکار کر دیا ۔اسی سیاست دان نے میرے باس کمشنر کو فون کر دیا ۔کمشنر صاحب نے مجھ سے ذکر کیا تو میں نے بتایا کہ میں تو انکار کر چکا ہوں ۔کمشنر صاحب کمال متانت اور محبت سے بولے ،اوکے،اب کسی کو اقرار نہیں کرنا ۔وہاں کا کلچر ہے کہ بھائی آپ نے مجھے انکار کر دیا ،کوئی بات نہیں۔مگر میری عزت اسی میں ہے کہ اب کسی کو ہاں مت کہنا کہ میری بے عزتی ہو جائے گی۔مگر وہی افسر جب پنجاب میں آتا ہے تو سیاست دان اسے فون کر کے کہتا ہے ،آپ نے دوسروں کو انکار کر دیا مگر اب میں کہہ رہا ہوں ، اب انکار کی گنجائش نہیں ۔ انگریزی میں بڑا خوبصورت ایکسپریشن ہے ۔More You Change the things , More the remain the same. آپ کسی شے یا سیچویشن کو جتنا الٹ پلٹ کر تبدیل کرتے ہیں ، اتنی ہی وہ پہلے جیسی ہو جاتی ہے ۔اس شہر آسیب میں لیڈر شپ اصلی ہو کہ جعلی بہر حال تبدیلی کی طاقت سے عاری اور محروم ہوتی ہے ۔ایک جماعت کا ورکر نعرہ لگاتا تھا ، ہم کوئی غلام ہیں ۔اسے پتا بھی نہیں تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے ۔ہم سب غلام ابن غلام ہیں ۔جب تبدیلی آنے کا شور مچتا ہے تو اس کے ساتھ اس کی روم میٹ امید بھی نقاب اتارنے لگتی ہے ۔ ایک پنڈت کہنے لگے کیا شریفس کو بھی فکس کر یا جائے گا۔میں نے کہا ۔۔میرا خیال ہے کہ شہباز بچ جائیں گے ۔ کہنے لگے کیسے؟ میں نے کہا ، چھوٹے میاں نے اگلی باری کی امید میں سیاست دانوں کے لیے سپیس ختم کر دی ہے ۔ اب نگرانوں میں کوئی اور شہباز ہے اور الیکشن کے بعد ؟ دلہن وہی جو پیا من بھائے ۔ یہ طے ہے کہ عمران اور نواز فارغ ہیں۔ ایک سردار جی ایک شادی پر مسلسل کھا رہے تھے ۔کسی دل جلے نے جل کر کہا ـ"سردار جی کھانے دیں درمیان وچ پانی وی پیوی دا اے" ۔ سردار جی نے بغیر وقفے کے کہا " درمیان آوے گا تے پی لاں گے" فی الحال نون کا ووٹ بینک سکڑ رہا ہے اور پی ٹی آئی کا بحال ہے۔ سیاست دان کسی بھی جماعت کا ہو ، ہار رہا ہے ۔ہمیشہ کے لیے۔وقفے کے انتظار میں ۔ ٭٭٭٭٭