موٹروے انٹر چینج سے فیصل آباد جانے والی سڑک پر ایک مقام پر ٹرک کھڑا تھا۔ عام مال برداری والا ٹرک۔ ڈرائیور کے کیبن کی چھت پر دو افراد جدید رائفلیں لے کر بیٹھے ہیں۔ پچھلے کھلے حصے میں پندرہ افراد ہیں۔ معلوم نہیں ان کا یہ سٹائل تھا‘ مزاح بھرا ناٹک تھا یا واقعی وہ عام زندگی میں اسی طرح نظر آتے ہیں‘ وقفے وقفے سے نعرے لگاتے ہیں‘ کیا کہتے ہیں یہ سمجھ نہیں آتا۔ بس یوں لگتا ہے انہیں کوئی جلدی سی ہے۔ پھر جہاں ڈالا کھولا جاتا ہے‘ اس طرف سے ایک تنو مند آدمی ٹرک پر چڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس نے ہاتھ ڈالے کے اوپر والے حصے پر جما رکھے تھے لیکن بازو باقی بدن کو اٹھا نہیں پا رہے تھے۔ پھر شاید ٹرک میں کھڑے جلد باز نظر آنے والے دو تین لوگوں نے اسے اوپر کھینچا۔ سفید لٹھے کا سوٹ پہنے راجہ صاحب کا وجود اوپر کھینچ آیا۔ ڈالے میں کھڑے ہو کر انہوں نے اپنے کپڑے جھاڑے اور ڈرائیور کیبن کے عقب میں پہنچ گئے۔ وہاں مائیک لگا ہوا تھا‘ ساتھ آلہ مکبرالصوت نصب تھا۔ میں اسے لائوڈ سپیکر بھی لکھ سکتا تھا لیکن راجہ صاحب کی شخصیت کے ساتھ مجھے آلہ مکبرالصوت ہی کہنا مناسب لگا۔ ٹرک کے سامنے کوئی پچاس لوگ ہوں گے ‘اردگرد بکھرے لوگوں کو جمع کر کے شمار کریں تو زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ دو سو۔ ہاں آنے والے کچھ لوگ مہنگی گاڑیوں میں آئے۔ ان گاڑیوں کو سڑک کے درمیان کھڑا کر دیا گیا۔ یوں آٹھ دس بیش قیمت گاڑیوں کے آگے پیچھے یہاں سے گزرنے والوں کی چھوٹی بڑی گاڑیاں رک گئیں۔بیس مربع گز کے اندر ماحول کچھ کچھ استقبالی سا بن چکا تھا۔ جنہیں راستہ نہیں مل رہا تھا وہ بے بسی سے گاڑیوں میں بیٹھے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے باقی اداروں کو کوس رہے تھے جو ان چند گاڑیوں کو سڑک سے ہٹانے میں دلچسپی نہیں لے رہے تھے۔ راجہ صاحب مائیک کے سامنے آئے اور ’’مران خان‘ مران خان‘‘ کہہ کر کسی کوبرا بھلا کہتے رہے۔ شاید وہ کامران خان کہنا چاہتے تھے یا پھر کسی اور کی بات کر رہے تھے۔ وہ ملک کی تباہی کا ذمہ داری مران خان کو قرار دے رہے تھے۔ یوں لگ رہا تھا کہ وہ جو نام لینا چاہتے تھے وہ کوئی اور تھا اور جسے مجرم کہہ رہے تھے وہ کوئی اور۔ راجہ صاحب کی شخصیت میں ایسا سحر ضرور ہے جو وہ پہلے 2008ء میںوزیر آبپاشی پنجاب رہے۔ اپوزیشن لیڈر رہے اور پھر قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بن گئے۔ انہیں اگر اپوزیشن لیڈر کی ’’وزارت‘‘ نہ ملتی تو وہ پی ڈی ایم حکومت میں ڈپٹی وزیراعظم تو ضرور بن جاتے۔ افسوس ان کی صلاحیتوں کی خبر لوگوں کو نہ ہو سکی۔ راجہ صاحب مائیک پر اپنی بولی بول کر الگ ہوئے‘ اب کیا کریں۔ پچاس ساٹھ لوگوں کا مجمع انہیں دیکھ کر بے قابو ہورہا تھا۔ راجہ صاحب کے چہرے پر جادوئی مسکراہٹ تھی۔ ہاتھ ہلا رہے تھے‘ جیسے کسی کے نعروں کا جواب دیا جا رہا ہو۔ عقب میں لگے فلیکس پر رانا ثناء اللہ اور دوسرے ضلعی عہدیداروں کی تصویریں تھیں۔ عابد شیر علی اور ان کے و الد کی جھلک کہیں نہیں تھی۔ سمندری والے طلال چوہدری کا بھی پتہ نہیں تھا۔ راجہ صاحب نے مریم نواز کے انداز میں ہاتھ ہلا کر اور تھوڑا سا شرما کر واضح کر دیا کہ وہ پارٹی دھڑوں کے مختلف سربراہوں کو کس طرح ایک ہی استقبالی تقریب میں خوش کرسکتے ہیں۔ راجہ صاحب بہت بھولے آدمی ہیں‘ کچھ سادہ لوح بھی ہیں‘ ہر شخص کی شخصیت میں کوئی ایک خصوصیت ایسی ہوتی ہے جس سے دوسرے دھوکہ کھا جاتے ہیں‘ شخصیت کی اصل کا اندازہ نہیں کر پاتے‘ راجہ صاحب کا دکھائی دینے والا بھولپن ان کی طاقت ہے۔ جب وہ پنجاب اسمبلی میں ہوتے تھے تو صدر آصف علی زرداری لاہور آئے۔ راجہ صاحب اپنی الگ گاڑی میں بیٹھنے کی بجائے صدر مملکت کی مرسڈیز میں ان کے ساتھ جا بیٹھے‘ کچھ دور جا کر سکیورٹی والوں نے انہیں اتارا اور ہاتھ جوڑ کر کہا ’’کملیا توں ہالے صدر نئیں بنیا‘‘۔ راجہ صاحب ہر اس گاڑی کی طرف لکپتے ہیں جو چمکتی ہو اور جسے بہت سے سکیورٹی گارڈوں نے حصار میں لے رکھا ہو۔ معلوم نہیں راجہ صاحب اتنا بڑا استقبالی جلوس لے کر کس طرح فیصل آباد شہر میں داخل ہوئے ہوں گے۔ ان کے ساتھیوں کے ہجوم نے فیصل آباد کی گلیاں بھر دی ہوں گی‘ ان کے سیاسی مخالفین گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے تھے۔ ایک بات کی سمجھ نہیں آئی‘ ان کی نئی جماعت کا کوئی جھنڈا اور بندہ استقبال کے لیے موجود نہ تھا۔ کوئی دوسرا ہوتا تو اسے یہ بات ناگوار گزرتی۔ راجہ صاحب کی خوبی ہے کہ انہیں کوئی چیز ناگوار محسوس نہیں ہوتی۔ خاص طور پر اگر انہیں کسی معاملے میں اپنا مفاد نظر آ رہا ہو تو وہ ایسی باتوں پر دھیان نہیں دیتے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے لیے جب ان کے نام کی لاٹری نکلی تو ہر کسی نے مذاق اڑایا۔ کہا گیا کہ پارلینٹ کی اس سے بڑھ کر توہین کیا ہوگی کہ راجہ صاحب جیسے رکن کو اپوزیشن لیڈر بنا دیا گیا۔ بطور اپوزیشن لیڈر انہوں نے حکومت کے فیصلوں اور اقدامات پر جس طرح ’’گرفت ‘‘کی وہ داد طلب ہے۔ بدخواہ انہیں مسلم لیگ ن کا وزیر کہہ کر طنز کیا کرتے۔ راجہ صاحب کسی قانون سازی میں رکاوٹ نہ بنے۔ وہ ہر بات کی تائید کرتے رہے۔ وہ حامی نہ بھرتے تو بھلا پی ڈی ایم حکومت کچھ کر پاتی۔راجہ صاحب مشورہ نہ دیتے تو نگران وزیر اعظم کہاں سے آتا۔ راجہ صاحب کا جلوس شہر میں آ چکا تھا۔ بریانی کی دیگ تک آتے آتے استقبالی مزدور ہانپ چکے تھے۔ مران خان کی تکرار وقفے وقفے سے جاری تھی۔ راجہ صاحب وجد میں آ رہے تھے۔ ان کی زبان سے نکلنے والے لفظ ایک دوسرے میں گھسنے لگے۔ سننے والوں کو یوں لگ رہا تھا کہ آصف زرداری‘ نوازشریف اور’’ مران خان‘‘ ایک ہو گئے ہیں۔ راجہ صاحب نے لندن سے واپسی پر اہل فیصل آباد سے جو اپیل کی تھی انہیں بھرپور جواب ملا۔ راجہ صاحب مطمئن ہو چکے ہیں۔ اب وہ مرسڈیز کے خواب پھر سے دیکھ رہے ہیں‘ انہیں امید ہے کہ ٹرک سے اتر کر وہ اس جھنڈے والی مرسڈیز میں ایک دن ضرور بیٹھیں گے۔