نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب سید محسن نقوی اپنے عہدے سے سبکدوش ہو گئے اور محترمہ مریم نواز 26 فروری 2024ملکی تاریخ کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ بن گئی ہیں۔ محسن نقوی نے 22جنوری2023 کو نگران وزیر اعلیٰ بنے ، انہوں نے اپنے 13 ماہ کے اقتدار کے دوران صوبے میں بہت سے ترقیاتی کام کرائے، رُکے ہوئے ترقیاتی منصوبوں کو مکمل کرایا، خصوصاً ہسپتالوں کی بہتری کے حوالے سے ان کے نام کو یاد رکھا جائے گا، کہنے کو تو وہ نگراں وزیر اعلیٰ تھے مگر انہوں نے پورے اختیارات کے ساتھ صوبے کو چلایا۔ ان کے دور میں صوبائی خزانے کی حفاظت کی گئی اور فنڈز کے استعمال میں شفافیت کا عنصر نمایاںنظر آیا۔ محسن نقوی پہلے نگراں وزیر اعلیٰ تھے جو خطیر رقم خزانے میں چھوڑ کر گئے۔ سابق وزیر اعظم شہباز شریف بھی نے اپنے دور اقتدار میں محسن نقوی کے کام کی بہت تعریف کی اور کہا تھا کہ انہوں نے مجھے بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ سید محسن نقوی سیاسی حلقوں میں یکساں مقبول تو ہیں ہی لیکن ملک کی سرکردہ سیاسی شخصیات سے بھی ان کے مضبوط تعلقات ہیں، چوہدری خاندان کے قریبی رشتہ دار اور آصف علی زرداری سے گہرا تعلق ہے۔ محسن نقوی کی اہلیہ ڈاکٹر اور ان کے چار بچے ہیں، محسن نقوی کی ایک خاص بات ان کی منکسر المزاج شخصیت اور عادت ہے، کوئی اہم شخصیت ہو یا عام آدمی، آفس میں کام کرنے والا ایک عام ملازم ہو یا افسر ، اُن میں تفریق نہیں کرتے ۔ اگر ہم وسیب کی محرومی کے حوالے سے بات کریں تونگراں وزیر اعلیٰ محسن نقوی کے دور میں وسیب کی محرومی برقرار رہی، اپنی کابینہ میں محسن نقوی نے وسیب سے کوئی وزیر یامشیر نہ لیا، اقتدار میں صحافیوں کی شرکت پر غور کریں تو مصطفی صادق، ارشاد حقانی ، نجم سیٹھی سمیت صحافیوں کی ایک طویل فہرست ہے جو نگران ادوار میں اقتدار میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ محسن نقوی خوش قسمت صحافی ہیں جن کو بڑے صوبے کی وزارت اعلیٰ ملی اور کابینہ میں حامد میر کے بھائی عامر میر شریک رکھا ۔ محسن نقوی کے اپنے میڈیا گروپ میں وسیب کے قابل ترین صحافی خدمات سر انجام دیتے آرہے ہیں۔ جاتے جاتے محسن نقوی نے لاہور کے صحافیوں کو ہائوسنگ سکیم میں پلاٹوں کا منصوبہ دیا گو کہ تھوڑاسا کوٹہ پنجاب کے دیگر اضلاع کے لیے بھی تھا مگر وقت کی قلت کے باعث محدود کوٹے سے بھی مستفید لاہور اور آس پاس کے مقامی صحافی ہی ہوئے۔ 13 ماہ کے دوران لاہور کو انڈر پاسز، فلائی اوور اور موٹر ویز کے منصوبے ملے مگر جھنگ سمیت وسیب اس سے محروم رہا، لاہور کے رُکے ہوئے منصوبے اربوں روپے کی لاگت سے قلیل مدت میں مکمل کیے گئے کہ وہاں دن رات کام ہوا جبکہ وسیب میں نشتر ہسپتال فیز ٹو اور ملتان کارڈیالوجی فیز ٹو فنکشنل ہوا ، البتہ شیخ زید ہسپتال رحیم یار خان فیز ٹو ابھی تک تشنہ تکمیل ہے۔ گورنر پنجاب میاں بلیغ الرحمن کی معرفت میں نے وزیر اعلیٰ محسن نقوی کو خان پور کیڈٹ کالج میں کلاسز کے اجراء کا لکھا، وزیر اعلیٰ نے حکم تو دیا مگر داخلے ابھی تک شروع نہیں ہوئے۔ پسماندہ علاقوں کی محرومی محسن نقوی کے دور میں بھی ختم نہ ہو سکی، ان کو موقع ملا تھا تو اور نہیں تو کم از کم جھنگ کی ترقی کے لیے ہی ان کو اقدامات کرنا چاہئے تھے۔ جھنگ کا ذکر آیا ہے تو یہ بتانا ضروری ہے کہ جھنگ سے ظلم سکھ و انگریز دور سے شروع ہوا، حکمرانوں کا یہ امتیازی سلوک بھی ملاحظہ ہو کہ جھنگ کو 1880ء میں میونسپلٹی کا درجہ اس وقت ملا جب ’’ لائل پور ‘‘ پیدا بھی نہ ہوا تھا ، کتنے دکھ کی بات ہے کہ قریباً ڈیڑھ صدی بعد جھنگ آج بھی میونسپلٹی ہی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں لائل پور کیا سے کیا ہو گیا۔ جھنگ کے مقابلے میں لائل پور آباد کیا گیا ، پھر اس کو جھنگ کی تحصیل بنا دیا گیا ، پھر اس کو ضلعے کا درجہ دے دیا گیا ، بعد میں کل کے لائل پور اور آج کے فیصل آباد کو ڈویژن کا درجہ دیا اور جھنگ کو ’’ فیصل آباد کمشنری ‘‘ کا حصہ بنا دیا گیا ۔ آخر میں محسن نقوی کے بارے میں بتاتا چلوں کہ محسن نقوی 28 اکتوبر 1978ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تاہم محسن نقوی کا آبائی شہر جھنگ ہے اور ان کے آبائو اجداد اور خاندان کے لوگ جھنگ کے رہنے والے تھے۔ محسن نقوی نے ابتدائی تعلیم کریسنٹ ماڈل ہائی سکول لاہور سے حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجوایشن کی، اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکی ریاست میامی کی اوہائیو یونیورسٹی سے صحافت میں ڈگری حاصل کی جس کے بعد وہ امریکی نیوز چینل سی این این میں انٹرن شپ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ سی این این نے انہیں بطور پرڈیوسر پاکستان کی کوریج کے لیے بھیجا جہاں ترقی پا کر انہوں نے کم عمری میں ہی ’’ریجنل ہیڈ سائوتھ ایشیا‘‘بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ سی این این کی تاریخ میں سب سے کم عمر ریجنل بیورو چیف بننے کا اعزاز پایا، افغان جنگ کے دوران پُرخطر رپورٹنگ میں اپنا لوہا منوایا۔ 30 سال کی عمر میں لوکل میڈیا سٹی نیوز نیٹ ورک کی بنیاد رکھی جس کے بعد یکے بعد دیگرے 6 نیوز چینلز اور ایک اخباران کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ پاکستان میں دور درازعلاقوں کے مسائل عام طور پر بڑے شہروں کی الیٹ کے ادراک میں نہیں رہے۔یہی وجہ ہے کہ ملک ترقی یافتہ اور پسماندہ ترین دو الگ الگ حصوں میں بٹ کر رہ گیا ہے۔حکومتوں کی توجہ نہ ہونے کی وجہ سے دیگر علاقوں کی طرح وسیب کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ان مسائل کو حل کیا جانا ضروری ہے ۔یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ مساوی مواقع فراہم نہ کئے جائیں تو پسماندہ علاقوں کا احساس محرومی ترقی کے پورے عمل کو اشتعال کی نذر کر دیتا ہے۔ ٭٭٭٭٭