گزشتہ روز 27جون تھا۔ میرے لیے اس لیے اہم کہ اس روز میرا پہلا کالم ایک اہم قومی روزنامے میں شائع ہوا تھا۔ ظاہر ہے مسرت اورکامیابی کا جو احساس اس روز میرے دل پر اترا دوبارہ اپنی صحافتی سفر میں اسے کبھی محسوس نہیں کیا۔ اس وقت تو بس میگزین کے کاموں کی یکسانیت سے گھبرا کر کالم لکھنے کا سوچا تھا اور صحافت میں کسی ان دیکھے جہاں کی دریافت کی خواہش تھی۔ نہ علم اتنا تھا نہ زندگی کا اتنا تجربہ، بس جو کچھ تھا وہ ایک خواہش اور خواب کی صورت سے زیادہ نہ تھا۔سو اسی زاد راہ کو لے کر ہم ایک ان دیکھے جہان کی دریافت کو چل پڑے۔اس وقت یہ خبر نہیں تھی کہ آنے والے وقتوں میں مجھے جیون کے سارے دھاگے اسی شجر کی شاخوں پر باندھنے ہیں۔ یہ تو بہت بعد میں کھلا کہ کالم نگاری آپ کی مستقل مزاجی اور صلاحیتوں کا امتحان ہے، یہ اس چیز کا امتحان ہے کہ اب کس حد تک جاننا چاہتے ہیں اور کیا جاننا چاہتے ہیں ۔یہ آپ کی ایسی ایسی خفتہ تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار کر دیتی ہے جو صرف ایک کالم نگار ہی سمجھ سکتا ہے۔ پرانے آئینے رکھ کر نئی آرائشیں کرنے کا ہنر ہر کالم نگار کو آنا چاہیے اور شاید آ ہی جاتا ہے ورنہ اس راستے کی میراتھن پر آپ دیر تک تروتازہ رہ کر بھاگ نہیں سکتے اور جلد ہی ہانپنے لگتے ہیں۔ پیغام رسانی کے اس تیز ترین ڈیجٹل دور میں معلومات کا ایک سیلاب ہمیں بہائے چلا جارہا ہے ۔یہی سیلاب کالم نگار تک پہنچتا رہتا ہے ۔ہر وقت کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے ، سیاسی حرکیات جتنی اس وقت زیر بحث رہتی ہیں شاید ایسا پہلے کبھی نہیں تھا کیونکہ اب ہر شخص سوشل میڈیا پر موجود ہے اور وہ جب چاہے جو چاہے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اپنی رائے کے طور پر اظہار کرسکتا ہے۔ یہیں پر کالم نگار کے لئے سب سے بڑا چیلنج پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیسے سوشل میڈیا پر زیر بحث آنے والے ، روندے ہوئے موضوعات سے نکل کر نئے موضوعات کو تلاش کرتا ہے۔ یا پھر انہی موضوعات سے سوچ کے نئے زاویے کیسے تلاش کرتا ہے۔کالم اور آرٹیکل میں ایک بنیادی فرق ہوتا ہے جسے بعض اوقات ادارتی صفحے پر چھپنے والے بھی نہیں سمجھتے۔ آرٹیکل یا مضمون آپ جتنا لمبا مرضی چاہیں لکھ سکتے ہیں۔آرٹیکل یا مضمون کے لیے الفاظ کی کوئی قید نہیں ہوتی طویل تحقیقی مواد بھی آپ اس کا حصہ بنا سکتے ہیں لیکن کالم کے لیے انٹر نیشنلی ہزار سے بارہ سو الفاظ کی حد رکھی گئی ہے۔میرے نزدیک ہزار الفاظ سے زیادہ کالم طوالت کے زمرے میں آتا ہے۔ کالم کی ایک پنچ لائن ہوتی ہے۔ اس کے آغاز،وسط اور اختتام کے درمیان ایک تخلیقی ربط ہونا ضروری ہے۔طویل تحریریں کالم کے زمرے میں نہیں آتیں ۔یہی تو کالم نگار کے لیے چیلنج ہوتا ہے کہ کیسے وہ ہزار ،گیارہ سو الفاظ کے درمیان رہ کر اپنی بات موثر طریقے سے قاری تک پہنچاتا ہے۔صحافت کے اندر کالم نگاروں کی یا ادارتی صفحے کی اہمیت کیا ہے؟ پرنٹ صحافت میں ادارتی صفحے کی بہت اہمیت ہے۔ اخبارات اب ادارتی صفحے کی بنیاد پر ہی اپنی جگہ مارکیٹ میں بناتے ہیں۔خبریں بہت سارے ذرائع سے آرہی ہوتی ہیں اور ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کی صورت میں خبر تیز ترین ذرائع کے ذریعے لوگوں تک پہنچ جاتی ہے۔اگلے دن اخبار میں اگر اخبار کے رپورٹر کی ایکسکلوسو خبر لگی ہو تو اس کی اہمیت ہوگی ورنہ اگر خبریں وہی ہیں جو ایک دن پہلے چینلوں پر چلتی رہی ہیں تو اس میں کوئی نئی بات نہیں ہوتی جبکہ ادارتی صفحے پر چھپنے والے کالم اس اخبار کا ایکسکلوسو مٹیریل ہوتا ہے ۔ وہی اس اخبار میں خاصے کی چیز ہے۔ کالم نگاری کو صرف سیاسی حالات و واقعات کی جگالی نہیں ہونا چاہیے۔۔ اپنی تحریر کی تر و تازگی برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ کالم نگار نئے موضوعات کا دائرہ وسیع کریں۔ اگر کالم نگار یہ چاہتا ہے کہ اس کی تحریر آج کل کے نوجوانوں کے لیے بھی ریلیوینٹ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ ان موضوعات پر بھی لکھے جو اس دور کے موضوعات ہیں۔ کالم نگاروں کو یہ سہولت حاصل ہوتی ہے کہ وہ اپنی مرضی کی تحریر اپنی خواہش اور سوچ کے مطابق، اپنے زاویہ نظر سے لکھ سکتے ہیں۔ سو ان کی تحریر میں ان کی شخصیت کے عکس جھلملاتے ہیں اظہار کا یہ خاص انداز ہی ایک کالم نگار کا اسلوب طے کرتے ہیں ۔ کالم نگار حقائق کے دائرے سے باہر نکل کر افسانہ نہیں تراش سکتے۔مگر اپنی تخلیقی نثر سے وہ حقائق کو افسانے کارنگ دے کے تحریر کی زندگی بڑھا سکتے ہیں۔ ایسی تحریر قاری کے ذہن پر تصویر ہو جاتی ہے اور یہی صحافتی ادب ہے۔دنیا بھر میں اب کالم نگاری کو جلدی میں تخلیق کیے جانے والا ادب سمجھا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کالم نگاری کو بہت پہلے ادب کی ایک اہم صنف کے طور پر مان لیا گیا تھا۔1897 میں امریکہ کے اخبار دی سن میں چھپنے والا ایک کالم ! Yes Virginia there is a Santa Claus چھپتا ہے۔ اخبار کا یہ کالم آج اکیسویں صدی تک سینکڑوں بار ری پرنٹ ہونے کا اعزاز حاصل کر چکا ہے۔انیسویں صدی کے اس اخبار کا تراشا واشنگٹن ڈی سی میں موجود خبروں کے میوزیم بھی رکھا گیا تھا۔امریکہ میں ایک کتاب چھپی جو وہاں کے ممتاز کالم نگاروں کے منتخب کالموں پر مشتمل ہے کتاب کا نام بہت خوبصورت ہے۔ Deadline Artist ۔. نام کی خوبصورتی اور معنی خیزی سے کوئی اخباری کالم نگار ہی لطف اٹھا سکتا ہے جو ہر ہفتے تین سے چار دفعہ ڈیڈ لائن پر کام کرکے ایسی تحریر لکھتا ہے جسے دنیا عجلت میں تخلیق کیے گئے ادب کے طور پر تسلیم کرچکی ہے۔ کالم نگاری صحافت اور ادب کے درمیان کا راستہ ہے۔یہ ایک کتھارسس ہے جس سے لکھنے والا اور پڑھنے والا دونوں بیک وقت گزرتے ہیں۔ اختر عثمان کی نظم کے مصرعے میرے اندر گھلتے رہتے ہیں۔ یہ جو لفظوں کی پیغمبری ہے اگر یہ نہ ہوتی تو عبرت سرا میں بھلا کون جیتا