گزشتہ روز حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ؒ کے 781 ویں سالانہ عرس میں بہشتی دروازہ کی’’ رسم قفل کشائی‘‘کی سعادت میسر ہوئی ۔ دنیا فانی ہے ،فنا کے گھاٹ اتر جانے والوں کو کوئی 781 دن بعد کوئی یاد نہیں رکھتا ، یہاں صدیاں بیت گئیں ، کیا اپنے اور کیا پرائے---’’حق فرید، یا فرید‘‘کے نعروں کی گونج سے فضائیں معنبر و منورہیں ۔مہندر سنگھ بیدی نے کہا تھا کہ : ٹوٹ سکتا ہے نظامِ انجم و شمس و قمر اور مٹ سکتے ہیں دنیا سے یہ دشت و بحروبر لیکن اے گنجِ شکر! تو زندہ و پائندہ ہے کل بھی تابندہ رہیگا، آج بھی تابندہ ہے حضرت پیر مہر علی شاہ ؒ ،پاکپتن شریف میں عرس پہ بڑے اہتمام سے تشریف لاتے اور طویل قیام فرماتے، اس قیام کی وجوہات اور تفصیلات کا بھی ذِکر کریں گے ، کسی نے وہاں ان سے پوچھا کہ لوگ دیوانہ وار حق فرید یا فرید کے نعرے لگائے جا رہے ہیں ۔اس کا سبب کیاہے ؟ آپؒ نے فرمایا کہ تو نے قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ نہیں پڑھا ، جہاں وہ کہتا ہے کہ تم مجھے یاد کرو اور میں تمہیں یاد کروں گا۔ بابا فرید ؒ نے ساری زندگی اللہ کی یاد میں زندگی بسر کی اور اللہ نے ان کی یاد اور ذکر کو جاودانی حیثیت عطا کردی۔ دیوان سید محمد سجادہ نشین درگا ہ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃُ اللہ علیہ پاک پتن شریف جو کہ حضر ت پیر مہر علی شاہ ؒ سے از حد محبت و عقیدت رکھتے تھے کی استدعا پر حضرت پیر مہر علی شاہ ؒ نے اُنہیں سلسلہ چشتیہ صابریہ کے اورا دو و ظائف اور ارشاد کی اجازت عطا فرمائی ۔ وہ اس سے پہلے سلسلہ چشتیہ نظامیہ میں اپنے نانا بزرگوار حضرت دیوان اللہ ؒ جو ایا سے بیعت تھے ۔ حضرت پیر مہر علی شاہ ؒ کے ساتھ ان کے قریبی رابطے کی بات’’مہر منیر میں‘‘ میں کچھ یوں ہے کہ دیوان اللہ جوایا ؒ لا ولد تھے ۔ لہٰذا اپنے وصال سے پہلے انہوں نے اپنے نو عمر نواسے اور متبنّٰی دیوان سید محمد کو بذریعہ وصیّت اپنا جانشین نامزد کیا ۔ لیکن ان کے انتقال کے بعد ان کے بارسُوخ بھتیجے میاں فتح محمد زبردستی گدّی پر قابض ہوگئے ۔ دیوان سید محمد کی طرف سے دیوانی دعویٰ خارج ہو گیا ۔ انہوں نے اپیل کی تو فریق مخالف نے انہیں قتل کی دھمکی دی اور جان لینے کے درپے ہوئے ۔ دیوان سید محمد کو جان بچانے کے لیے ریاست پٹیالہ کے ایک گائوں میں جاکرپنا لینا پڑی ۔ اس دوران میاں فتح محمد نے خاندان چشتیہ کے تمام مشہور سجادہ نشینوں سے اس مضمون کے ایک محضر نامے پر دستخط کروالیے کہ دیوان سید محمد کم عمر ہیں اور پاکپتن شریف جیسی گدّی کے لیے میاں فتح محمد ہی موزوں و مستحق ہیں ۔ جب یہ محضر نامہ اورد ستاویز دستخطوں کے لیے گولڑہ شریف پہنچی تو حضرت قبلہ عالم قدس سرّہ نے دستخط کرنے سے انکار کردیا اور میاں فتح محمد کے حضرت ثانی سیالوی ؒ کے ذریعہ کوشش و اصرار کے جواب میں حضرت گولڑویؒ نے فرمایا کہ آپ کا فرمان بجا مگر میرا دِل اس طرف راغب نہیں ہوتا ۔اس روحانی بشارت کی اطلاع کسی طرح حضرت ؒ دیوان سید محمد کی والدہ صاحبہ کو ہوگئی ۔ لہٰذا چیف کورٹ تک ان کی اپیلیں نامنظور ہوگئیں تو مائی صاحبہ نے اپنے ایک عزیز میاں خدا بخش نامی کے ذریعے حضرت قبلۂ عالم قدس سرّہ کی خدمت میں تو سّل اور استمداد کی درخواست کرتے ہوئے عرض کی کہ آئندہ اپیل کے لیے بہت رقم کی ضرورت ہوگی، اگر آپ اجازت بخشیں تو کوشش کی جائے ۔ حضرت ؒ نے فرمایا کہ اگر گنجائش ہے تو ہمت کریں ۔ چنانچہ آپؒ کی دعا کے بھروسہ پر مائی صاحبہ نے اٹھارہ ہزار روپیہ قرض لے کر پریوی کونسل لندن میں اپیل دائر کردی ۔ جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے دیوان سید محمد کے حق میں فیصلہ ہوا اور وہ بالا آخر گدّی پر متمکن ہوگئے ۔ کچھ عرصہ بعد حضرت قبلہ عالم قدس سرّہ نے پاکپتن شریف کی حاضری کا ارادہ فرمایا ۔ اور مولوی محبوب عالم صاحب آپؒ کی رہائش کا انتظام کرنے کی خاطر وہاں پہنچے۔ عرس شریف کا موقعہ تھا اس لیے جب انہوں نے دیوان صاحب سے حضرت ؒ کے ارادہ کا ذکر کر کے جائے قیام کی درخواست کی تو وہ خاموش رہے ۔ اس وقت تک دیوان صاحب کے ساتھ حضرت قبلہ عالم قدس سرّہ کا ،یا آپؒ کے خدّام کا براہ راست کوئی تعارف یا تعلق نہیں تھا اور نہ باہم خط و کتابت کی نوبت ہی آئی تھی ، اس لیے مولوی صاحب نے دیوان صاحب کی خاموشی کو انکا رپر محمول کر کے جب بدیں خیال اُٹھنا چاہا کہ شہر میں کسی کرائے کے مکان کا انتظام کرنا چاہیے ، تو دیوان صاحب نے انہیں روک کر فرمایا کہ میں یہ سوچ رہا تھا کہ ایسے خصوصی مہربان بزرگ کے لیے جنہوں نے ایک نازک وقت پر بغیر کسی تعار ف کے میری امداد فرمائی کونسی جگہ مناسب ہوگی ۔ میر ی خواہش تھی کہ آپ کا قیام موتی محل میں ہو لیکن چونکہ وہاں عرس کے موقعہ پر بعض دیگر حضرت قیام فرماتے ہیں، اس لیے مجھے اندیشہ تھا کہ مبادا وہ حضرات محسوس کریں ۔ مگر اب میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ آپؒ کی جائے قیام موتی محل ہی ہوگی ۔ دوسروں کے متعلق حضرت باوا صاحب ؒ جانیں اور وہ صاحبان جانیں ۔ جب حضرت قبلہ عالم قدس سرّہ پاک پتن شریف پہنچے اور دیوان صاحب سے ملاقات کی تو دیوان صاحب بیان فرماتے تھے کہ آپ کودیکھ کر میں تعظیماً اُٹھ کر تو ملا مگر میرے دل میں آپ کے متعلق جو حُسنِ ظن تھا وہ جاتا رہا ۔ میرا خیال تھا کہ حضرت ؒ کے سر پر روئی کی ٹوپی ہوگی ۔ کمر میں نیلے یا جوگیا رنگ کا تہمد ہوگا اور گلے میں قدرے میلا اور مستعملہ لمبا سا کُر تا ہوگا۔ لیکن اس وقت تک ایک فقیر اور ولی اللہ کی ہیت اور لباس کا یہی نقشہ ہمارے ذہن میں تھا ۔ مگر دیکھا تو ماشا اللہ نہایت خوبصورت گھنگھر یا لی زُلفیں ، نفیس کُلا پرسفید عمامہ اور سفید رنگ جن پر چغہ پہن رکھا تھا ۔ میں نے سمجھا کہ دنیا وار ہیں ۔ اور اُٹھ کر ملنے پر دل ہی دل میں افسوس بھی ہوا۔ لیکن حضرت ؒ نے میرے خطرہ دل پر مطلع ہو کر مجلس میں اپنے ایک ارادت مندا فسر مال سے مخاطب ہو کر دریافت فرمایا کہ جب آپ لوگ اپنے کسی افسر سے ملاقات کے لیے جاتے ہیں تو کیا اچھا لباس پہن کر جاتے ہیں یا میلا کچیلا اور پھٹا پرانا ؟ اس نے عرض کیا کہ اگر ہم اچھا لباس پہن کر نہ جائیں تو افسران بُرا منائیں گے ۔ اس حضرت ؒ نے فرمایا کہ جب دنیا وی افسروں کی حاضری کے یہ آداب ہیں تو جو دینی پیشوا اور صاحب ِ سجادہ ہو اس کے دربار میں حاضری کے آداب کا خود خیال کرلیں ۔نیز حدیث شریف میں ہے کہ خدا جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے ۔پاکپتن میں حضرت گولڑوی کی تعظیم کا یہ عالم تھا کہ حضرت دیوان سیّد محمد نے حضرت ؒ کی سواری کے لیے ایک گھوڑا مختص کر رکھا تھا ۔ جس پر تمام سال کوئی شخص سوار نہ ہوتا ۔ اور فقط آپؒ ہی حضرت بابا صاحب ؒ کے عُرس شریف کے دوران اُس پر سواری فرماتے تھے ۔ سال بھر زین نہ ڈالنے کی وجہ سے گھوڑا سر کش ہوجاتا۔ اس لیے احتیاطاً حضرت ؒ کی تشریف آوری سے کچھ روز قبل دیوان صاحب اپنے بھائی میاں غلام رسُول سے فرما تے کہ اگرچہ مجھے یقین ہے حضرت اس کی سواری میںکوئی تکلیف محسوس نہیں فرمائیں گے ۔ تاہم بہتر ہے کہ آپ اسے کچھ رواں کرلیں ۔