گئے دنوں کی ایک یاد ہر محرم میرے دامن سے لپٹ جاتی ہے۔شاید نویں ،دسویں کی اردو کی کتاب تھی جس میں میر انیس کے مرثیے کے کچھ حصے موجود تھے میں انہیں با آواز بلند پڑھ رہی ہوں اور میں اس بند پر پہنچتی ہوں جنگل سے آئی فاطمہ زہرا ؓکی یہ صدا امت نے مجھ کو لوٹ لیا وا محمدا اس وقت کون حق محبت کرے ادا ہے ہے یہ ظلم اور دو عالم کا مقتدا انیس سو ہیں زخم تن چاک چاک پر زینب نکل حسینؓ تڑپتا ہے خاک پر قریب بیٹھی ہوئی امی جان بھی میر انیس کے ان دلگیر مرثیوں کو سنتی ہیں اور ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے۔وہ آنکھوں کی نمی اپنے دوپٹے کے کنارے میں جذب کرتیں ہیں، ہمیں بتاتی ہیں کہ ان کی والدہ مرحومہ یعنی میری نانی جان برکت بی بی محرم کے 10 دن حزن اور اداسی کی کیفیت میں گزارا کرتیں ۔ان دنوں میں واقعہ کربلا کے دل چیر دینے وال واقعا پڑھتیں اور زار زار رویا کرتیں۔خود ہمارے ہاں بھی محرم کے دنوں میں ایک حزن ایک اداسی دل سے درودیوار پر چھائی رہتی تھی۔نو یا دس محرم کو خصوصی نیاز بانٹی جاتی۔ واقعہ کربلا کا تذکرہ کیا جاتا اور سنا جاتا۔ ان دنوں صرف پی ٹی وی تھا اور پی ٹی وی پر دس دن تفریحی پروگرام گانے بجانے کے پروگرام بند ہوتے تھے۔شہدائے کربلا کی یاد میںپروگراموں کے پس منظر میں چلنے والا روٹین کا میوزک بھی بند ہوجا تا اردو زبان میں لکھے گئے شاہکا نوحوں اور مرثیوں کو تحت اللفظ میں پڑھا جاتا۔ضیا محی الدین، طارق عزیز، شعیب ہاشمی کوٹی وی پر تحت اللفظ میں میر انیس کے مر ثیے پڑھتیسنا اور دیکھا۔ صبا اکبر ابادی کو ان کے شاہکار مرثیے پڑھتے دیکھا۔اگرچہ ہر مسلمان گھرانے میں غم حسین کے تقدس کا خیال کیا جاتا ہے اور اس کا خصوصی اہتمام ہوتا ہے لیکن وہی چیز اگر میڈیا کے ذریعے بھی نوجوان نسل تک پہنچتی ہے تو اس کا اثر جداگانہ ہوتا ہے۔اس وقت پی ٹی وی جن اہل اختیار کے ہاتھوں میں تھا اللہ تعالی ان کو جزائے خیر دے کیونکہ ان کی بنائی گئی پالیسیوں کے توسط سے اسوقت بچوں کی ذہنی اور ان کی تہذیبی تربیت ہوئی۔میر انیس کے مرثیوں کو بہترین پڑھنے والوں کے تحت اللفظ میں ریکارڈ کیا گیا اور عام لوگوں تک پہنچایا گیاپھر پی ٹی وی کے تمام سٹیشنوں سے بہت اعلی معیار کی محفل مسا لمہ منعقد ہوتیں۔ جن کو رات جاگ کر سننا ایسا تھا کہ ہم پر فرض ہے۔اپنی ڈائری میں اچھے اشعار کو نوٹ کرتی جاتی بہت سارے اشعارآج بھی جو یادداشت کا حصہ ہیں وہ انہی محفلوں میں سنے تھے۔ پی ٹی وی پر 10 محرم کو شام غریباں پیش کی جاتی ۔علامہ طالب جوہری شام غریباں پڑھتے تو کیا سماں باندھتے تھے میری والدہ مرحومہ بہت شوق سے اور خصوصی اہتمام کے ساتھ شام غریباں سنا کرتی ہیں اور ہم ان کے ساتھ بیٹھ کے سنتے تھے۔تو یہ ایک ماحول تھا جس میں ان بچوں کی بھی تربیت ایسی ہوتی تھی جو شیعہ مسلک کی طرح خاص طور پر مجالس میں نہیں جاتے تھے لیکن سرکاری ٹی وی سے شہدائے کربلا کا غم ایسے لگتا تھا کہ پورے ملک میں ایک ساتھ منایا جا رہا ہے ۔اس زمانے کی ڈائریوں میں جہاں محفل مسالمہ سے سنے گئے احمد ندیم قاسمی پیر نصیر الدین گولڑہ شریف، افتخار عارف، پروین فنا سید کے اشعار ڈائری میں درج ہیں،وہیںمیر انیس کے اخبار میں چھپنے والے مرثیوں کے بند بھی ڈائری میں درج ہیں۔اس وقت یہ سہولت کہاں تھی کہ انٹرنیٹ پر ریختہ کی سائیٹ کھول کر میر انیس کا نایاب کلام بھی پڑھ سکتے۔ میر انیس کو ہندوستان کا شیکسپیئر، خدائے سخن اور اردو نظم کا ہومر خیال کیا گیا ان کے بارے میں کہا گیا کہ شاعری کے دوسرے معیارات پر بھی ان کا شمار اردو زبان کے صف اول کے شعراء میں ہوتا ہے اور مرثیہ تو ان سے بہتر کسی نے کہا ہی نہیں۔جس باریک بینی اور جزئیات کے ساتھ میر انیس واقعہ کربلا کو بیان کیا ہے وہ انہی کا خاصہ ہے پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ جیسے سکرین پر مناظر اپنی تمام تر جزیات کے ساتھ بدل رہے ہیں۔میر انیس کے مرثیے پڑھ کے عصمت چغتائی نے ایک قطرہ خون جیسا دلگیر ناول لکھا اور ان کے اشعار کو نثر کا روپ دیا۔خیموں سے میدان جنگ کو رخصت، میدان جنگ میں آمد ,رجز ،جنگ کے مناظر ،شہادت،اور پھر بین پر مبنی اشعار میں میر انیس کی جذبات نگاری،منظر کشی اور واقعہ نگاری ان کی قادر الکلامی کا شاہکار ہیں ایک مرثیے کے چند بند دیکھئیے ،کیامنظر نگاری ہے کیا قادر الکلامی ہے ۔ یہ ایک طویل مرثیہ ہے جس کا عنوان ہے ،’’آ ج شبیر پہ کیا عالم تنہائی ہے‘‘ اس مرثیہ کے اخری چند بند۔ گود میں میری سکینہ کو اٹھاؤ ہمشیر کوئی اصغر کی طرح مار نہ بیٹھے اسے تیر پھر یہ بیٹی کو پکارے ترے صدقے شبیرؓ تو بھی جا ساتھ پھوپھی جان کے اب اے دلگیر وقتِ طاعت ہے ذرا یادِ خدا کر لیویں ہم بھی اب آتے ہیں، سجدے کو ادا کر لیویں کہہ کے یہ غش ہوئے پھر رن میں شہنشاہ امم شمرِ اظلم نے رکھا، سینہ اقدس پہ قدم جگرِ فاطمہ زہرا پہ چلی تیغِ دو دم آگے زینب کے ہوئے ذبح حسین آہ ستم پیٹ کر بنت شہنشاہِ زمن رونے لگی باپ کو بیٹی، برادر کو بہن رونے لگی فتح کا فوج مخالف میں بجا نقارا غل ہوا ،قتل ہوا شیر خدا کا پیارا بس انیس اب نہیں گویائی کا مجھ کو یارا غم سے خوں ہو گیا سینہ میں کلیجا سارا