علم سیاسیات میں جدید ریاست کے چار اجزائے ترکیبی ہیں۔ (1) اقتدارِ اعلیٰ (2) علاقہ (3) عوام اور (4) حکومت۔ ان چاروں اجزاء میں اقتدارِ علیٰ تو عالمی طاقتوں اور عالمی سودی، مالیاتی نظام کے ہاتھوں یرغمال ہے اور جب کسی ریاست کا اقتدارِ اعلیٰ ہی یرغمال ہو تو ریاست کا نمائندہ ادارہ ’’حکومت‘‘ جسے "Organ of State" کہا جاتا ہے، وہ مکمل طور پر بے بس ہوتا ہے۔ پاکستانی ریاست گذشتہ ستر سال سے مسلسل امریکی حجلۂ عروسی میں مسند نشین ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ امریکہ نے اس ’’عروسِ ہزار داماد‘‘ کو چین و دیگر چھوٹے چھوٹے ممالک سے چھوٹی موٹی آشنائیوں کی اجازت دے رکھی تھی۔ لیکن جیسے ہی چین نے بھی امریکہ کی طرح چھوٹی ریاستوں کو اپنے دام میں مستقل طور پر پھنسانے کی کوششیں شروع کیں اور معاشی میدان مارنا شروع کیا تو پھر ہمیں آہستہ آہستہ اس سے علیحدہ ہونے کے لئے کہا گیا اور اب تو باقاعدہ آنکھیں دکھا دی گئی ہیں۔ اسی غم و غصے میں عمران خان کی حکومت بھی برطرف کرائی گئی اور شہباز شریف کو ریاستی پالکی میں بٹھا کر امریکی حجلۂ عروسی میں بٹھا دیا گیا۔ اس تبدیلی پر ہوا یوں کہ اب اقتدارِ اعلیٰ اور حکومت ایک طرف ہو گئے اور انکے مقابلے میں عوام کی نفرت دوسری جانب۔ اس سے جس کشمکش نے جنم لیا ہے، اس سے ریاست کا چوتھا ستون یعنی ’’علاقہ‘‘ اب مکمل طور پر ایک لاوے کی طرح کھول رہا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی گرمی میں شدّت سے اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ ریاستی قوت اس لاوے کو کب تک اور کس حد تک کنٹرول میں رکھ سکتی ہے۔ اس اہم سوال کے جواب میں حکومتی سطح پر مسلسل تیاریاں کی جا رہی ہیں کہ کسی طرح اس آتش فشاں کے لاوے کو خطرناک ہونے سے روکا جا سکے۔ دوسری جانب عمران خان اس لاوے کو ایک بہائو کی شکل دیتے ہوئے اسلام آباد لے جا رہے ہیں۔ اس گھمسان کے رن میں کیا صورتِ حال پیدا ہو سکتی ہے اور بساط پر کس کو شہ مات کا خطرہ ہے۔ حکومتِ پاکستان جو اس وقت امنِ عامہ کے وسائل کے اعتبار سے صرف اسلام آباد کیپٹل کی پولیس اور مرکزی حکومت کے تحت کام کرنے والے نیم فوجی دستوں (Para Military Forces) تک محدود ہے۔ اسلام آباد چاروں جانب سے صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخواہ سے گھرا ہوا ہے جہاں کی تمام لاء اینڈ آڈر مشینری حکومتِ پاکستان کو میسر نہیں آ سکتی۔ اسلام آباد پولیس کی محدود نفری ایک بڑے جمِ غفیر کو روکنے کی اہلیت نہیں رکھتی، سندھ سے آئی ہوئی پولیس کے بارے میں تجربہ یہ کہتا ہے کہ وہ خود اسلام آباد کی بھول بھلیوں میں ’’گم کردہ راہ‘‘ ہو جائے گی اور ہنگامے کا مقابلہ مشکل سے کر سکے گی۔ ان حالات میں بھروسہ نیم فوجی دستوں (Para Military Forces) پر ہو گا۔ اس وقت پاکستان میں ان نیم فوجی دستوں میں سے تین لاکھ چار ہزار ایسے ہیں جو فیلڈ ڈیوٹی دینے والے (Active Personnel) ہیں۔ ان میں 1,85,000 نیشنل گارڈ ہیں جنہیں عمومی طور پر حالتِ جنگ میں سول ڈیفنس، نرسنگ، ترسیلِ سامان وغیرہ کے لئے بلایا جاتا ہے۔ یہ اچانک خوابِ خرگوش سے جاگتے ہیں، اپنی سالوں پرانی وردیاں نکال کر انہیں استری کر کے میدان میں اُترتے ہیں۔ ان کا کسی قسم کے عوامی احتجاج کو روکنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے، بلکہ انہیں بلانا اُلٹا نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کے بعد ایئر پورٹ سکیورٹی فورس (8,930)، میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی (2,500)، کوسٹ گارڈ (7,000) اور اینٹی نارکوٹکس فورس (3,100) شامل ہیں جنہیں کسی طور پر بھی اپنی ڈیوٹیوں سے نہیں ہٹایا جا سکتا۔ بلوچستان میں ایف سی کے اسّی ہزار جوان موجود ہیں جو موجودہ حالات کے اعتبار سے اب بھی کم پڑتے ہیں اور لیویز اور دیگر علاقائی فورسز پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے، یہی صورتِ حال قبائلی علاقہ جات میں تعینات فرنٹیئر کنسٹبلری کے تیس ہزار جوانوں کی ہے کہ اگر وہاں سے ایک کو بھی نکالا گیا تو محاذ کمزور پڑ جائے گا۔ آخری اُمید رینجرز پر آ کر ٹھہر جاتی ہے جس کے پاس ایک لاکھ جوان ہیں۔ ان میں بھی اندرون ملک ڈیوٹی کے لئے 25 ہزار سے زیادہ میسر نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے تین ہزار تین سو تئیس (3,323) کلو میٹر بارڈر سے رینجرز اپنے کتنے جوان مرکزی حکومت کے حوالے کر سکتے ہیں۔ شاید ایک بھی نہیں۔ اہم تنصیبات پر سے انہیں نہیں نکالا جا سکتا۔ اسلام آباد پولیس اور رینجرز بڑے سے بڑے لانگ مارچ کو بھی وقتی طور پر اسلام آباد سے واپس دھکیلنے کی قوت رکھتے ہیں۔ کیونکہ اگر لاکھوں کا ہجوم بھی اسلام آباد آ جائے، تو اسے چند ہزار سپاہی جدید اینٹی رائٹ (anti Roit) ہتھیاروں کے استعمال سے منتشر کر سکتے ہیں۔ لیکن اصل کہانی تو لانگ مارچ کو منتشر کرنے کے بعد شروع ہو سکتی ہے۔ اس لئے کہ جب یہ منتشر لیکن بپھرا ہوا ہجوم واپس اپنے گھروں کو لوٹے گا اور اپنے ساتھ تشدد کے زخم بھی لائے گا تو پھر نتیجے میں پورا ملک ہنگاموں کی نذر ہو سکتا ہے۔ ایسے میں اگر پورے ملک کے دو سو مقامات پر بھی مسلسل ہنگامے شروع ہو گئے تو یہ ایسی خطرناک صورتِ حال ہو گی جسے سنبھالنے کے لئے پورے ملک میں موجودہ پولیس فورس ناکافی ہے۔ اوّل تو پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں یہ فورس خاموش تماشائی بنی رہے گی، لیکن اگر ایمرجنسی لگا کر یا گورنر راج کے ذریعے اسے مرکزی حکومت کے تحت کر بھی دیا جائے تو ملک گیر ہنگاموں کو روکنے کے لئے پھر بھی یہ صرف ناکافی ہی نہیں بلکہ مکمل بے بس ہو سکتی ہے، اور اس کا تجربہ 1977ء کے ملک گیر ہنگاموں میں ہو چکا ہے۔ خیبر پختونخواہ میں آئی جی سے لے کر سپاہی تک 68,176 لوگوں میں سے ہنگاموں کو کنٹرول کرنے کے لئے 25 ہزار پولیس والوں سے زیادہ نہیں مل سکتے۔ پنجاب میں یہی تعداد 1,79,921 ہے لیکن پچاس ہزار سے زیادہ پولیس والے جلوس روکنے کے لئے میسر نہیں ہوں گے۔ آپ تھانوں، جیلوں، ٹریفک کے نظام، اعلیٰ حکومتی دفاتر، اہم تنصیبات سے سپاہی نہیں نکال سکتے۔ سندھ پولیس کے پاس 1,28,500 ہیں لیکن ان میں سے بھی کام کے صرف چالیس ہزار ہیں۔ بلوچستان میں تو پولیس نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسلام آباد میں اگر حالات بگڑتے ہیں، لانگ مارچ کو قوت سے منتشر کر دیا جاتا ہے اور اس کے بعد جس طرح کا اشتعال انگیز روّیہ رانا ثناء اللہ کا ہے، کہ فتح کی بڑھکیں لگائی جاتی ہیں تو ردّعمل میں ہنگامے شہروں اور قصبوں میں پھیل سکتے ہیں۔ ملک گیر ہنگاموں کی صورت میں ہر شہر کے جلوس کے لئے وہاں صرف چند سپاہی ہی میسر ہوں گے۔ ایسی صورت میں چند سو افراد کا جلوس بھی اپنے شہر میں ان پولیس والوں پر حاوی ہو سکتا ہے۔ اپنے شہر میں ایسے احتجاج اور ہنگامے مہینوں چلائے جا سکتے ہیں، اور پھر ایک دن وہی لمحہ آ سکتا ہے جو چھ جولائی 1977ء کو آیا تھا کہ تین شہروں میں مارشل لاء بھی لگایا گیا، لیکن عوامی غصہ اس قدر تھا کہ فوج نے گولی چلانے سے انکار کر دیا۔ ایسی صورتِ حال میں مشورہ دینے والے بہت ہیں جو تبصروں کی صورت کہہ رہے ہیں کہ آخری حل کے طور پر ضیاء الحق کی طرح مارشل لاء لگ جائے گا۔ لیکن 19 کروڑ موبائل اور بائیس کروڑ آبادی کے اس ملک میں ایسا ہو تو سکتا ہے لیکن حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ میرے دوست نصرت جاوید جیسے دانشور برما اور مصر کی مثالیں دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہاں بھی تو موبائل انٹرنیٹ وغیرہ سب تھے لیکن فوج آ گئی۔ لیکن شاید حالات سے ناواقفیت ہے یا پھر ذاتی خواہش کہ انہیں اندازہ تک نہیں کہ برما اور مصر میں کوئی بلوچستان نہیں تھا، کوئی وزیرستان، باجوڑ اور سوات نہیں تھے اور نہ ہی ان دونوں ملکوں کی سرحدوں پر بھارت جیسا کوئی دشمن گھات لگائے بیٹھا تھا۔ پاکستان میں ایسی کوشش بہت خطرناک ہو سکتی ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں عوامی ردّعمل کو سنبھالتے سنبھالتے، بلوچستان، قبائلی علاقہ جات میں جو کچھ ہو سکتا ہے، وہ بہت خوفناک ہے اور پاک بھارت سرحد سے تو منہ موڑا ہی نہیں جا سکتا۔ ریاست کے چار اجزائے ترکیبی ہیں، لیکن یاد رکھو ان میں سب سے طاقتور عوام ہوتے ہیں، دونوں کو مدِمقابل نہیں لانا چاہئے۔