سیاسی کشیدگی اور سماجی انتشار کی بڑھتی ہوئی اس کیفیت سے خود کو بچانے کے لئے (کچھ دیر کے لئے ہی سہی) ضروری ہے کہ مطالعہ ء کتب کو زیادہ وقت دے دیا جائے۔اور یہ تو ایک حقیقت ہے کہ کتاب انسان کی بہترین دوست ہے سو جب سیاسی او ر سماجی منظر پریشان کن ہو اور فکری بے بسی اس پر مستزاد تو پھرخود کو بہترین دوست کی آسودہ پناہ گاہ کے سپرد کر نا ضروری ہو جاتا ہے ۔ اس آسودگی میں آپ کی شرکت بھی ضروری ہے ۔انٹر نیٹ کی سہولت نے برقی کتب کی موجودگی کے باعث کتب تک رسائی کو حد درجہ آسان ضرور کر دیا ہے مگر مطالعہ کا جو سرور اور دیر پا اثر کتاب کو ہاتھوں میں لے کر پڑھنے میں ہے وہ برقی کتاب کے مطالعہ سے ممکن نہیں ۔کتاب کا لمس ،کاغذ کی خوشبو اور اس کی قربت کا احساس ایک الگ ہی نشہ ہے جو کتاب کے طبعی وجود سے ہی حاصل ہو تا ہے۔ یہ سرشاری قائم رہنے کے لئے ضروری ہے کہ کتابوں کی اشاعت کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہے۔جو کتابیں گزشتہ دنوں زیر مطالعہ رہیں ان میں سے ایک کا تعارف پیش ہے۔ ارمغان لاہور :۔ جب تجسس زاد راہ ہو اور تحقیق مزاج بن جائے تو پھر ارمغان لاہور جیسی تاریخ کو کھوجتی کتاب کاوجود میں آنا ممکن ہوجاتا ہے۔ پرانی مٹتی عمارتوں ، گمشدہ راستوں اورویران ہوتی قبروں کے آثار میں چھپی تہذیبی تاریخ کو اشرف شریف صاحب نے جس محنت سے تراش کر اور سنوار کر ’’ ارمغان لاہور ‘‘ میں مرتب کیا ہے اس سے ان کی روح میں تڑپتی مچلتی مٹی کی محبت لفظ لفظ ،سطر سطر اور صفحہ صفحہ جاگتی اور جگاتی نظر آتی ہے۔لاہور صدیوں کے نشان اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے ۔یہاں قدم قدم پر تاریخ کا کوئی باب ملتا ہے ۔شہر لاہور کے طلسم نے اس تاریخی بازیافت کے سفر میں انہیں اپنے حصار میں لئے رکھاہے۔اشرف شریف جو ایک صحافی ہیں ،باغبان ہیں ،مو رخ اور محقق ہیں اپنی اس کاوش پر اہل علم و دانش سے یقینا خراج تحسین کے مستحق ہیں ۔ ممتاز ادیب، ناول نگار اور سفرنامہ کو ایک نئی جہت سے روشناس کرانے والے جناب مستنصر حسین تارڑ اس کتاب کا تعارف کراتے ہوئے کہتے ہیں ۔ ’’ جب ایک کاشت کار ہل کی ہتھی پر زور ڈالتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ وہ مٹی الٹتی پلٹتی جاتی ہے ۔ یہ اس کاشت کار کے زور بازو اور مٹی سے اس کی محبت پر ، مٹی سے وہ جو دانش کشید کرتا ہے اس پر منحصر ہے کہ وہ ہل کی ہتھی پر کس طرح زور ڈال سکتا ہے، جو قوت بازو ہے اسے کس طرح بروئے کار لاتا ہے ۔ چنانچہ ایسے کاشت کار کے ہل کا پھالا زمین کے اندر دور تک جاتا ہے ، مٹی کی ایسی تہیں برآمد کرتا ہے، دریافت کرتاہے جو شاید اس سے پیشتر وہاں پر دبی پڑی تھیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اشرف شریف نے یہ جو لاہور کی سر زمین پر ہل چلایا ہے ، اپنے خیالات کا ، اپنی تحقیق کا، اپنی زبان کا ، لاہور شہر کی جو بالکل مختلف تہیںتھیں اس نے ان کو دریافت کیا ہے۔ یہ تہیں ابھی تک نا معلوم تھیں۔‘‘ اشرف شریف صاحب کی پھولوں ،پودوں ، پرندوں اور موسموں کے تمام بھید بھائو سے آگہی حیرت انگیز حد تک وسیع اور مستند معلوم ہوتی ہے ۔ صحافیانہ ذمہ داریوں ساتھ ساتھ ان کا شوق علم ، تحقیق و جستجو کے مشکل راستوں پر انہیں کشاں کشاں لئے پھرتا ہے ۔یہی شوق جنوں انہیں لاہور کی تلاش میں گم ہوتے آثار و احوال کا کھوج لگانے کے لئے قریہ قریہ لئے پھرتا ہے۔ اس ضمن میں وہ خود اس بات کا اظہارکرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ آج کا لاہور کئی گنا پھیل چکا ہے ۔ایک جانب قصور، دوسری جانب شیخوپورہ اور سارا جی ٹی روڈ اس سے مل گیا ہے۔ اتنے پھیلے ہوئے لاہور میں کئی تاریخی دیہات ، آثار اور گوشے ڈوب رہے ہیں۔ آبادی کا بے قابو اضافہ ، حکومتوں کی غفلت اور سماجی شعور کی کمی ہمیں اپنی تاریخ سے دور کر رہی ہے۔ ہم اپنے ہاتھوں اجداد کی نشانیاں مٹارہے ہیں ۔ زیر نظر کتاب کو ایک ایسی کوشش کے طور پر آپ کی پذیرائی درکار ہے جو مٹتے ہوئے آثار اور مقامی مسلم و غیر مسلم بزرگوں کی یادگاروں کو محفوظ کرنے کی نیت سے قلمبند کی گئی ہے۔‘‘ لاہور کی تاریخ پر اس سے قبل بھی کئی کتابیں لکھی گئیں ہیں مگر آثار، شخصیات اوراحوال کے تناظر میں جس عرق ریزی اور گہری وابستگی سے اس کتاب میں لاہور کو تلاش کیا گیا ہے وہ شاید ہی اس سے قبل کسی نے کیا ہو ۔اس کتاب کا خاصا یہ ہے کہ اس میں لاہور کے نواحی علاقوں کو اہمیت دی گئی ۔ یہ سارے علاقے پچھلے ستر برسوں میں لاہور شہر میں گم ہو چکے ہیں ۔ اندرون لاہور کی تاریخ کئی جگہ موجود ہے لیکن اس نواحی لاہور کے آثار مورخین کی توجہ سے محروم رہے ہیں ۔ اس بات کی سند مستنصر حسین تارڑ بھی دے چکے ہیں ۔ وہ کتاب کے تعارف میں فرماتے ہیں : ’’ میں سمجھتا ہوں کہ اشرف شریف نے ایک بہت حیرت انگیز کتاب لکھی ہے ۔ کم از کم میری نظر سے کوئی ایسی کتاب نہیں گزری جو اتنی گہرائی میں لاہور کی تاریخ اور انوائرمنٹ کو بیان کرتی ہے۔ ‘‘ ہمیں یقین ہے کہ یہ کتا ب علمی حلقوں ،تاریخ و ثقافت کے طالب علموں کے لئے ایک گراں قدر اضافہ اور اثاثہ ثابت ہو گی۔ اشرف شریف صاحب کی اس کاوش کو علامہ عبدالستار عاصم نے انتہائی عمدگی کے ساتھ قلم فائو نڈیشن لاہور سے شائع کیا ہے ۔علامہ صاحب بھی تحسین کے مستحق ہیں ۔ ٭٭٭٭٭