کربلا کیا ہے؟کربلا ایک راز ہے۔عام لوگوں کے لیے محض ایک واقعہ۔۔۔اسلامی تاریخ کے بطن سے۔بصارت والوں کے لیے ایک پاور پلے مگر بصیرت والوں کے لیے یہ ایک لکیر ہے۔۔۔حدِ فاصل ہے۔حق اور باطل کے درمیان۔ارشاد ہو رہا ہے: عصر کی قسم۔۔ بے شک انسان خسارے میں ہے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے۔حق بات کی نصیحت اور صبر کرتے رہے۔قطبِ وقت صوفی برکت صاحب سے کسی نے پوچھا۔۔آپ شیعہ ہو یا سُنی؟جواب بڑا خوبصورت تھا۔"واقعہ کربلا کے بعد صرف حُسینی اور یزیدی رہ گئے۔۔۔میں حُسینی ہوں"۔مسلک کے اس فساد نے محدود کر دیا۔۔۔ورنہ حُسین ؑ فرض تھے اُمتِ رسولؐ پر۔10محرم کا دن تھا اور میں محرم کی مناسبت سے پاکستان ٹیلی ویژن کا ایک پروگرام کنڈکٹ کر رہا تھا۔ایک عالمِ دین نے سوال کیا۔"حُسین ؑ منیِ وَ اَنا مِن الحُسین" ارشاد ہے آقائے دو جہاں کا۔"حُسین ؑ مجھ سے ہے"یہاں تک تو بات سمجھ آتی ہے مگر"میں حُسین ؑ سے ہوں"یہ کیا معاملہ ہے؟کہنے لگے کربلا تک تو"حُسین ؑ مجھ سے ہے "اور کربلا کے بعد"میں حُسین ؑ سے ہوں"۔امام نے اپنی اور اپنے اہل خانہ کی قربانی دے کر نانا کے دین کو بچا لیا۔ورنہ آج وہ لکیر دھندلا جاتی،مٹ جاتی جس نے حسینیت اور یزیدیت کے درمیان خون سے ایک امتیازی خط کھینچ دیا۔بابا جی واصف علی واصف بصیرت والے تھے۔کہتے ہیں"امامِ حُسین ؑ عالی مقام کا سجدہ کائنات میں ایک ایسا سجدہ ہے جو کہ آج تک نہ کسی نے کیا اور نہ ہی ایسا سجدہ ہو سکتا ہے"۔ وقت کرتا ہے پرورش برسوں۔۔۔ حادثہ ایکدم نہیں ہوتا۔مسلمانوں کی تاریخ کو شاید اسلامی تاریخ کہتے ہیں۔محدثین کا بیان بھی ہے اور مؤ رخین کا بھی۔ مگر ایسا ایسا مسلمان بھی ہے جو نہ محدثین کو مانتا ہے اور نہ مؤرخین کو۔متواتر احادیث ہیں،بُخاری،مسلم،سنن ابو داؤد ،مستدرک الحاکم اور ترمذی میں بھی۔مگر وہ جو کہتے ہیں یہاں لکھا نہیں جا سکتا۔چلیں انہیں چھوڑیں۔۔۔آگے بڑھتے ہیں۔متفقہ علیہ حدیث ہے"میں تم میں کتاب اللہ اور اپنے اہلِ بیت کو چھوڑے جا رہا ہوں۔جب تک تم ان سے تمسک کر وگے،گمراہ نہ ہو گے"۔ یہ بھی کہ"میں تم سے رسالت کا کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ میرے قربیٰ سے مؤدت کرو گے"۔مؤدت۔۔محبت سے اگلی سٹیج ہوتی ہے،شدت کی اور لگن کی۔واقعہ مباہلہ کیا ہے؟کس طرح ایک نجرانی پادری سے آقاؐ کا مباہلہ طے پا گیا۔مناظرہ علمی مقابلہ ہوتا ہے اور مباہلہ روحانی۔قرآن کے مطابق ۔۔۔کہا گیا تم اپنے بیٹے لائو۔۔میں اپنے بیٹے لائوں گا۔۔تم اپنی بیٹیاں لائو،میں اپنی بیٹیاں لائوں گا،تم اپنے نفس کو لائو،میں اپنے نفس کو لائوں گا۔اللہ کی محبوب ترین ہستی اپنے ساتھ کسے لائی؟حضرت علی ؑ،آقا کی بیٹی،امامِ حسن اور حُسین۔بی بی کا نام ادب سے نہیں لکھ رہا۔عیسائی پادر ی نے سرکارِ رسالتؐ کے ہمراہ جو چہرے دیکھے،اس پر خوف طاری ہو گیا۔وہ مباہلہ سے دستبردار ہو گیا۔ کہنے لگا۔۔۔اگر یہ چہرے اور ہستیاں دُعا کریں تو پہاڑ بھی اپنی جگہ چھوڑ دیں۔ مشہور مسلمان مؤرخ علامہ ابنِ حجر مکی۔۔۔اپنی کتاب اَ لصّواعقِ المُحّرقَہمیں سورۃ الحزاب کی اس آیت کا ذکر کرتے ہیں جو اہلِ بیت کی شا ن می نازل ہوئی"اے اہلِ بیت،اللہ کچھ نہیں چاہتا،اس کے سواء کہ تم سے رِجس کو دور کر دے اور تمہیں پاک کر دے"۔کِساء عربی میں چادر کو کہتے ہیں۔حدیث ِ کِساء کے مطابق آقاؐ نے اپنے دو نواسوں۔۔بیٹی اور داماد کو اپنی چادر میں داخل کیا اور فرمایا"اے اللہ یہ مجھ سے ہیں اور میں اِ ن سے ہوں۔جو ان سے جنگ کرے میں اُس سے جنگ کروں گا۔جو اِن سے دشمنی کرے گا میں اُس سے دشمنی کروں گا "۔حدیث ہے:میرے اہلِ بیت کشتیٔ نوح کی مانند ہیں جو اس میں سوار ہوا وہ نجاب پا گیا۔مگر اس بات کو صر ف باسٹھ سال گزرتے ہیں۔کربلا کا مقام ہے۔نبیؐ کا نواسہ اپنے خاندان اور کچھ ساتھیوں کے ہمراہ بہت بڑے مسلمان لشکر کے سامنے ہے۔امامؑ کے خیموں سے چھوٹے چھوٹے بچوں کی صدائیں آ رہی ہیں۔العطش۔۔العطش۔مسلمانوں کا لشکر اپنے نبیؐ کے نواسے اور اُس کے خاندان کے خون سے کربلا کی مٹی کو خون میں نہلانا چاہتا ہے۔شِمر۔۔۔اہلِ لشکر کو کہہ رہا ہے،جلد حُسین کا سَر تن سے جُدا کرو۔۔۔نمازِ عصر کا وقت نکلا جا رہا ہے۔عصر کی تشنہ لبی یاد آئی۔۔۔وقت کی بوالعجبی یاد آئی۔۔۔ابر برسا جو کہیں پر محسن،مجھ کو اولادِ نبیؐ یاد آئی۔دونوں لشکروں کے دونوں جانب مسلمان تھے۔ حُسینی مسلمان۔۔۔ یزیدی مسلمان۔ زمان و مکاں کی تقدیر کی لوح پر خالقِ کائنات نے اپنی حکمت سے ایک لکیر کھینچ دی۔حُسینیت۔۔یزیدیت۔مؤرخ لاکھ ڈنڈی مارے،اپنی منافقت کو عقل کا نقاب دے کر اِسے دو شہزادوں کی جنگ بنا دے۔اِسے پاور پلے کا نام دے دے۔بصیرت نہیں رکھتا اس لیے نہیں جانتا کہ یہ پاور پلے نہ تھا۔ نبیؐ آخر الزماں۔۔۔تمام انبیائ،مولا حُسین ؑ کے گھر والے ،ملائک اور اولیاء ۔۔۔سب دیکھ رہے تھے کہ کس طرح نانا کے دین کو بگاڑ سے بچانے کے لیے،نبیؐ کا نواسہ اپنے گھر والوں کی اور اپنی قربانی پیش کر رہا ہے۔و ہ قربانی جس کی ابتداء اسمٰعیل ؑہیں اور انتہا حُسین ؑ۔بات سمجھ آ رہی تھی کہ جب آقا ؐنے کہاتھا"حُسین مجھ سے ہے اور میں حُسین سے ہوں" تو اس کا حقیقی معنی کیا تھا۔کربلا ایک راز ہے جسے سب نہیں جانتے سوائے اہلِ نظر کے۔ واصف علی واصف بھی اہلِ نظر ہیں۔وہ کہہ رہے ہیں۔ السلام اے نورِ اوّل کے نشاں السلام اے راز دارِ کُن فکاں السلام اے داستانِ بے کسی السلام اے چارہ سازِ بے کساں السلام اے دستِ حق باطِل شکن السلام اے تاجدارِ ہر زماں السلام اے رہبرِ عِلم لدُن السلام اے افتخارِ عارفاں