برطانوی وزیر اعظم بنجمن ڈسرائیلی نے ایک بہت خوبصورت تاریخی بات کہی ہے۔ کہتے ہیں ،’’ امیروں کے محل کبھی محفوظ نہیں ہوتے اگر غریبوں کی جھونپڑیاں خوشحال نہ ہوں۔‘‘یہ خوبصورت بات کل بھی سچ تھی اور آج بھی سچ ہے۔وہ حکمران جنہیں یہ بات سمجھ آ جاتی ہے ،عوام میں بھی عزت اور وقار پاتے ہیں اور تاریخ میں بھی زندہ رہتے ہیں۔ مگر کیا کیا جائے کہ ہمارے حکمرانوں کو یہ بات کبھی سمجھ آئی نہ آئے گی ۔ چند دن ہوئے ایک صاحب برطانیہ سے تشریف لائے ہوئے تھے۔ ان سے ملاقات ہوئی تو دوستوں نے پوچھا کہ آپ پاکستان کی موجودہ صورت حال کے بارے بتائیں کہ آپ کا کیا خیال ہے اور غیر ممالک میں لوگ اس کے بارے کیا سوچتے ہیں۔کہنے لگے میں کوئی نجومی نہیں، کوئی تجزیہ نگار بھی نہیں اور صحافت بھی میرا پیشہ نہیں۔ مگر وہاں برطانیہ میں رہتے ہوئے وہاں کے اخبارات کا روز مطالعہ کرتا ہوں اورجو وہاں کے صحافی لکھتے ہیں پڑھتا اور محسوس کرتا ہوں۔ میں، جس کے بزرگوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں اور جس کے رگ و پے میں پاکستان بستا ہے، اس صورت حال سے پریشان نہیں ، انتہائی پریشان اور متفکر ہوں۔برطانیہ اور مغربی ممالک کے اخبارات اور رسالے کھل کر پاکستان کے بارے لکھ رہے ہیں کہ جمہوریت کی عدم موجودگی،انسانی حقوق کی پامالی اور جبر کی بہت سی دیگر صورت حال کے باعث شاید بہت سی تبدیلیاں آئیں۔کہنے لگے میرے منہ میں خاک کہ میں اپنے دیس اپنے ملک کے بارے کچھ غلط سوچوں مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ باہر کی دنیا کی سوچ ہم سے بہت مختلف ہے۔ ہمارے زمینی حقائق بھی اس قدر گھنائونے ہیں کہ انہیں سوچ کا موقع دیتے ہیں۔اب ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ اپنے حالات کو بہتر کرنا ہے ۔ تاکہ انہیں اپنی سوچ کے بارے مایوسی ہو۔یا یہی سوچنا ہے کہ اللہ بہتر کرے گا۔ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ اللہ کیوں بہتر کرے گا اگر ہم خود کوشش نہیں کریں گے۔ برطانیہ میں ہن اوور (Hannover) دور کے حکمرانوں، جب ملکہ صوفیہ کے جرمن بیٹے جارج اول اور جارج دوم وہاں کے بادشاہ تھے،کے عہد میں برطانیہ کے انداز حکمرانی میں تھوڑی تبدیلی آئی ۔ جرمن ہونے کی وجہ سے جارج اول انگریزی بالکل نہیں جانتا تھا اور جارج دوم بھی کافی حد تک انگریزی سے ناواقف تھا۔ انہوں نے اپنے اختیارات اس وقت کی پارلیمنٹ کو منتقل کر دئیے اور پہلی دفعہ مملکت میں رابرٹ والپول (Robert Walpole) کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا جو 1721 سے 1742 تک وزیراعظم رہا۔اس کے بعد وزیر اعظم تبدیل ہوتے رہے لیکن ان سب وزرائے اعظم کا احوال پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر ایک نے ایک سے بڑھ کر ایک نے برطانیہ کی خدمت کی اور برطانیہ اور برطانوی عوام کی فلاح اور ترقی کے لئے بے پناہ کام کیا۔ہر ایک کا دور بہترین دور تھا۔خامیاں اور خوبیاں اپنی جگہ لیکن خامیوں کے مقابلے میں ان کی خوبیاں اور انتھک محنت کو لوگ آج بھی اچھے لفظوں میں یاد کرتے اور ان پر کرپشن اور بد دیانتی کا کوئی دھبہ نہیں لگاتے۔ ہر نیا وزیر اعظم ایک نئی تحریک کا پیامبر تھا اور اس نے برطانیہ کے حوالے سے اپنی خدمت کے بل پر ایک نئی تاریخ قلم بند کی اور نام کمایا۔ بنجمن ڈسرائیلی (Benjamin Disraeli) برطانیہ کا 1874 سے 1880 تک وزیر اعظم رہا۔وہ بنیادی طور پر یہودی تھا۔تعلیم زیادہ تر گھر پر یا عام چھوٹے مدرسوں میں پائی۔کیمرج سے اس نے قانون کی تعلیم حاصل کی اور پھر سوچنے لگا کہ وہ سیاست اپنائے یا لٹریچر کی تعلیم حاصل کرے لیکن آخر میں اس نے سیاست کے حق میں فیصلہ کیا۔ یہودی ہونے کی وجہ سے اس کے لئے سیاست ایک انتہائی مشکل راستہ تھا۔ حالانکہ وہ ذہنی طور پربہت لبرل تھا۔اس وقت برطانیہ میں دو پارٹیاں توری (Tori)اور وگ (Whigs) کام کر رہی تھیں۔ پہلے اس نے فیصلہ کیا کہ آزاد الیکشن لڑا جائے۔ لیکن آزاد حیثیت میں پے در پے شکستوں کے بعد اس نے توری پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی اور اسی کے ٹکٹ پر پارلیمنٹ کا ممبر منتخب ہوا اور پھر وزیر اعظم بھی بنا۔ڈسرائیلی نے اپنے چند سالہ دور میں پبلک فلاح کے بہت سے کام کئے۔ اس نے چھوٹے قصبوں میں دس بجے رات کے بعد اور بڑے شہروں میں گیارہ بجے رات کے بعد کاروبار پر پابندی عائد کی ۔1878 میں اس نے ٹریڈ یونین بنانے کی اجازت دی۔ اس نے دس سال سے کم عمر بچوں سے مزدوری لینے پر پابندی عائد کی ۔ تعلیم کو عام کیا۔ صحت کی سہولتوں کو بہتر کیا۔عورتوں سے ہفتے میں 56 گھنٹے سے زیادہ کام لینے پر پابندی عائد کی۔اس نے اتنے بے پناہ کام کئے کہ ان کا احاطہ چند سطروں میںممکن نہیں۔ لیکن اس کی دو خوبیاں راست بازی اور مستقل مزاجی اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں۔ اس نے ہر معاملے میں کسی دوسرے کی پیروی کرنے کی بجائے کوشش کی کہ ہر مشکل کا حل اپنے طریقے سے خود نکالے ۔ اس کے زبردست مخالف بھی کہتے ہیں کہ پارلیمانی تاریخ میں اس کا عہد ہر لحاظ سے ایک شاندار اور بہترین دور تھا۔پاکستان کووجود میں آئے 76سال گزر چکے۔ ابھی تک ہمیں کوئی ایسا و زیر اعظم یا رہبر میسر نہیں آسکا جس کے بارے ہم سوچیں کہ وہ غریبوں کے جھونپڑوں کی خوشحالی کا متمنی ہے یا اس نے ایسی کوئی کوشش کی ہے۔ ہاں زبانی بات چیت میں تو ان کا ثانی کوئی نہیں، کیونکہ اگر باتوں سے خوشحالی آتی تو سارے غریب اس وقت تک محلوں میں منتقل ہو چکے ہوتے۔ مگر ہم خوابوں کے محل بناتے ہیں ،جو فقط ہماری آنکھ کھلنے تک ہمارے ساتھ ہوتے ہیں، آنکھ کھل جاتی ہے تو وہی پرانی چیزیں ، وہی غربت ، وہی لاچاری اور وہی بے بسی جن کا اور ہمارا شاید چولی دامن کا ساتھ ہے ۔مگر یہ چیزیںبدل نہیںسکتیں جب تک ہم خود کو نہیں بدلیں گے۔ ہمیں ہر غلط بات پر احتجاج کرنا نہیں آئے گا۔ ہماری سوچ اجتماعی نہیں ہو گی۔ ہم دوسروں کی مشکل کو اپنی مشکل نہیں سمجھیں گے۔آہستہ آہستہ حالات بدل رہے ہیں ۔اب دعائوں سے بڑھ کر دوائوں کی ضرورت ہے۔لوگ مہنگائی سے اس قدر تنگ ہیں کہ کوئی چھوٹا سا واقعہ انہیں کسی وقت بھی سڑکوں پر لا سکتا ہے۔شاید پھر صورت حال کچھ سوچنے کا موقع نہ دے۔اس لئے حکمرانوں کو جو سوچنا ہے آج سوچنا ہے۔ بھوک کے مارے عوام تو ہر سوچ سے بالاتر ہو جاتے ہیں۔