وہ لیسکو کا بھیجا ہوا بل اٹھائے میرے پاس آئے کہ بتائیں یہ بل اس قدر زیادہ کیسے آ گیا۔دونوں کے مشترکہ بل میں چار سو دس (410) یونٹ کا استعمال ظاہر کیا گیا ہے۔پچھلے کئی ماہ سے بجلی کا استعمال تقریباً اتنا ہی تھا مگر بل ہمیشہ دس ہزار کے لگ بھگ آتا تھا۔ اس دفعہ بل بائیس ہزار آ گیا ہے ۔ اب وہ پریشان ہیں کہ اس دفعہ کیا خاص ہوا ہے کہ بل روٹین سے بارہ ہزار زیادہ آ گیا ہے۔کہہ رہے تھے کہ ہم دونوں کی آمدن فی کس چوبیس ہزار ہے ۔ سات ہزار روپے مکان کا کرایہ دیتے ہیں ۔ ہر ماہ پانچ ہزار بجلی کابل ادا کرتے ہیں۔دو ہزار بچوں کی فیس اور ان کے دیگر اخراجات میں خرچ ہو جاتا ہے۔کل دس ہزار بچتا ہے جس سے مہنے بھر میں گزارہ کرنا ہوتا ہے ۔ آپ خود سوچیں کہ دس ہزار میں ہم کیا کرتے ہوں گے۔میں انہیں کیا بتاتا ،میرا اپنا بل حد سے زیادہ آگیا ہے۔میرا بجٹ بھی بری طرح بگڑ چکا۔ میں ان کی طرح کسی کو بتا بھی نہیں سکتا کہ مجھ پر کیا بیتی۔ بل کے عذاب سے بچنے کے لئے میں نے سولر پینل لگوائے ہوئے ہیں۔ میرے سولر پینل جتنی بجلی بناتے ہیں وہ میں زیادہ تر استعمال کر لیتا ہوں۔ کچھ بجلی جو میرے استعمال کے بعد وافر ہوتی ہے، وہ میں لیسکو کو بیچ دیتا ہوں۔اس بجلی کی قیمت لیسکو والے مجھے صرف نو روپے فی یونٹ کے حساب سے دیتے ہیں۔لیسکو جو بجلی عوام کو فراہم کرتا ہے اس کے دو ریٹ ہوتے ہیں ۔ Off اورPeak hoursریٹس ۔ پہلے غالباً رات کو ساڑھے چھ بجے سے لے کر ساڑھے دس بجے تک بجلی کا استعمال زیادہ ہونے کے پیش نظر ان چار گھنٹوں کو پیک آور قرار دے کر ان کا ریٹ عام ریٹ سے بہت زیادہ رکھا گیا تھا۔دو ماہ پہلے تک سارا دن تیس روپے یونٹ والی بجلی تو ہم اپنے سولر پر ہی گھر بھر کو فراہم کر لیتے مگر پیک آورز میں ہمیں مجبوری میں واپڈا سے پچاس روپے کے حساب سے بجلی لینی پڑتی تھی۔ سارے دن میں ہماری بچی ہوئی بجلی لیسکو والے نو روپے میں ہم سے لے کر ہمیں اپنی بجلی پیک آورز میں پچاس روپے یونٹ کے حساب سے دیتے، کیونکہ پیک آورز میں ہم اپنی بجلی استعمال نہیں کر سکتے تھے۔اب لیسکو نے میرے جیسے بندے کے ساتھ دو ظلم کئے ہیں ۔ایک تو بجلی کا ریٹ حد سے زیادہ بڑھا دیا ہے اور دوسرا پیک آورز کو چار گھنٹے سے بڑھا کر چھ گھنٹے کر دیا ہے۔ اب پیک آورز شام ساڑھے چھ سے ساڑھے دس کی بجائے پانچ بجے سے رات گیارہ بجے تک شمار ہونگے۔ اس چھوٹی سی تبدیلی نے میرے جیسے لوگوں کے بلوں کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ میرا بل ہر ماہ چار پانچ ہزار ہوتا تھا۔ لیکن اب پچھلے مہینے ساٹھ (60)ہزار اور اس ماہ چوہتر (74) ہزار ہے۔اتنا زیادہ بل مجھے دینا مشکل ہو رہا ہے حالانکہ ہم عملاً تین خاندان یعنی میں اور میرے دو بیٹے اس گھر میں رہتے ہیں اور بل کو مل کر ادا کرتے ہیں۔مگر ملازمت کرنے والے لوگوں کا بجٹ تو ہمیشہ محدود ہوتا ہے۔ پنجابی میں ایک لفظ ہے سیاپا۔ آج کل آنے والے بلوں کے باعث ہر گھر میں سیاپا شروع ہے۔ اس قدر مہنگائی کہ لوگوں کو کھانا میسر نہیں۔ مڈل اور لوئر کلاس کے لوگ کوشش کے باوجود گھر کے اخراجات پورے نہیں کر پا رہے۔ وہ لوگ کیا کر سکتے ہیں ۔ فقط سیاپا کر سکتے ہیں اور کر رہے ہیں۔ لگتا تھا کہ حالات اس ڈگر پر آئیں گے۔ جب ذمہ دار بات سمجھنے کی بجائے ظلم و ستم روا رکھیں۔لوگوں کو غیر ضروری دبائیں۔ فرعون کے لہجے میں بات کریں اور یہ جان لیں کہ خدا وہی ہیں، خدا کی طرح فیصلے کرنے لگیں یہ جان کر کہ فیصلوں میں انہیںمکمل اختیار ہے ،وہ جسے چاہیں زندہ رہنے کی اجازت دے سکتے ہیں اور جس کا گلا دبانا چاہیں دبا سکتے ہیں تو قہرکسی نہ کسی صورت تو ٹوٹنا ہوتا ہے۔اس لئے کہ جب لوگ بے بس ہوں تو وقت کے فرعونوں کو فطرت سبق سکھاتی ہے۔لوگ کتنے دن صبر کریں گے۔ اب شاید وہ وقت آ گیا ہے کہ وہ اپنے حق کے لئے اٹھیں۔بھوک تو انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہے، بھوک مٹانے کے لئے تو لوگ سب کچھ کر جاتے ہیں۔ بجلی، گیس اور پانی جو انسان کی بنیادی ضروریات ہیں، ان کو اس قدر نایاب کر دینا کہ وہ لوگوں کی رسائی میں نہ رہیں، سراسر زیادتی ، ظلم اور نا انصافی ہے۔اب لوگوں کا چپ رہنا ممکن نہیں۔اس جبر کے خلاف آواز اٹھانا بہت فطری ہے۔لگتا ہے کہ اگر صورت حال یہی رہی تو عوام کو باہر آنے سے کوئی روک نہیں سکے گا۔ کراچی میں ’’کے الیکٹرک‘‘ کے حالات زیادہ خرا ب ہیں ۔اس لئے کہ وہاں بجلی پاکستان بھر میں سب سے مہنگی ہے۔ لوگ پہلے ہی بہت تنگ تھے۔ اب پچھلے دو مہینوں میں ہونے والے لگاتار اضافے نے انہیں مجبور کیا ہے کہ وہ اپنے حق کے لئے بولیں۔کراچی کے تمام تاجروں نے باقاعدہ اعلان کیا ہوا ہے کہ وہ بجلی اور گیس کے یہ نئے بل ادا نہیں کریں گے اس لئے کہ ان بلوں میں بجلی کی قیمت بہت زیادہ ہے اور دوسرے ان میں بہت سے ایسے ٹیکس ڈالے گئے ہیں جن کی عام آدمی کی زندگی سے کچھ لینا دینا ہی نہیں ۔ چنانچہ بل ادا نہ کرنے والوں کے میٹر کاٹنے کے لئے جب’’ کے الیکٹرک‘‘ کا عملہ کراچی کی ٹمبر ماکیٹ پہنچا تو تاجروں نے باقاعدہ مزاحمت کی ، عملے کو بھگانے کے لئے دست وگریبان ہوئے۔بڑے بڑے معزز لوگ کہ جن کے بارے سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ وہ جھگڑا کریں گے ، تاجروں اور ’’کے الیکٹرک‘‘ کے عملے کے درمیان لڑائی میں پیش پیش تھے۔ تاجروں نے عملے کے کچھ ارکان کو زبردستی اغوا کرکے بند کر دیا۔جب کہ عملے کے ارکان نے کار سرکار میں مداخلت کے جرم میں تاجروں کے خلاف پولیس میں رپٹ لکھوائی ہے۔یہ جو کچھ ہو رہا ہے تنگ آمد بجنگ آمد والی بات ہے ۔اب لوگ باہر آ چکے ہیں اس لئے کہ بلوں نے ان کے منہ سے نوالہ چھین لیا ہے۔ بھوک اس قدر ظالم شے ہے کہ آدمی اسے مٹانے کے لئے خود کو مٹانا قبول کر لیتا ہے۔ حکومت ٹرخا کر لوگوں کوگھروں میں واپس نہیں بھیج سکتی۔لوگ بجلی کی جائز قیمت کے متلاشی ہیں اور آخر کار حکومت کو گھٹنے ٹیکنے ہوں گے۔